Maktaba Wahhabi

144 - 413
الاحتجاج ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے استدلال کیا ہے۔ بتلائیے ایسی صور ت میں جو روایت بھی ضعیف، مدلس، مختلط راوی سے منقول ہو وہ اس لیے ضعیف نہیں ہو گی کہ اس سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی شرط نہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی، نہ صحیح حدیث لانے کا کوئی ضابطہ انھوں نے ذکر کیا، نہ ہی دیگر متقدمین اہلِ علم نے ان کے حوالے سے ایسا کوئی اصول ذکر کیا۔ یہ بھی دراصل عثمانی صاحب کا خانہ ساز اصول ہے۔ رہی یہ بات کہ امام مجتہد جب کسی روایت سے استدلال کرے تو وہ روایت صحیح اور استدلال کے قابل ہے اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد تھے۔ مگر اس اصول کی بے اصولی بھی ہم پہلے واضح کر آئے ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت بابت رفع الیدین، کے متعلق امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں اسماعیل بن عیاش ہے اور اس سے استدلال کرنے والے اس کی روایت جو شامیین سے نہ ہو اسے حجت قرار نہیں دیتے تو وہ خود اس کی ایسی روایت سے اپنے مخالفین کے خلاف حجت کیوں پکڑتے ہیں۔[1] یہاں اس تفصیل کی تو ضرورت نہیں کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مدار اسماعیل بن عیاش پر نہیں اس کے اور صحیح طرق بھی ثابت ہیں۔ ہمیں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اسماعیل کے بارے میں یہ اعتراف ہے کہ محدثین اس کی غیر شامیین سے روایت کو حجت نہیں سمجھتے ،مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ خود وہی اسماعیل کی سعید بن عبد اللہ سے روایت سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ سعید کے بارے میں تو عثمانی صاحب کو بھی اعتراف ہے کہ میں اسے نہیں پہچانتا ۔ شائد وہ اپنے آپ کو اس قسم کی جرح وقدح سے بالاتر سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے ہی تو فرمایا ہے۔ ((ما أردت بشیء من ذلک تضعیف أحد من أھل العلم وما ھکذا مذھبی ولکنی أردت بیان ظلم الخصم لنا)) [2]
Flag Counter