Maktaba Wahhabi

134 - 413
بھی اسی طرح مرفوع نقل کرتے آئے ہیں مگر یہ قطعاً مرفوع ثابت نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور جو مرفوع ہے اسے بیان کرنے والا سلیمان بن عمرو النخعی کذاب اور وضاع ہے جیسا کہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے التعلیق الممجد اور تحفۃ الاخیار میں اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی السلسلۃ الضعیفۃ [1] میں اس پر تفصیلا نقد کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ امام محمد کی بلاغات مسند ہیں محض خوش اعتقادی کا نتیجہ ہے۔ بلکہ امام محمد نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تشہد کی حدیث نقل کر کے فرمایا ہے: ((کان عبد اللّٰه بن مسعود رضی اللّٰه عنہ یکرہ أن یزاد فیہ حرف أوینقص منہ حرف)) ’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشہد میں ایک حرف کا اضافہ یا ایک حرف کا نقص مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘[2] اس اثر کے بالاسناد ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی انھی حضرات پر ہے جو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی بلاغات کو مسند قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ’السلام علیک أیھا النبی‘ کی بجائے’ السلام علی النبی‘ پڑھنے لگے تھے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاستئذان[3] میں ذکر کیا ہے اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابوعوانہ، مسند السراج، الجوزقی ، ابو نعیم اصبھانی اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے بلکہ مصنف عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ سے بسند صحیح نقل کیا ہے کہ امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تو ’السلام علیک أیھا النبی‘ مگر آپ کے انتقال کے بعد’ السلام علی النبی‘ پڑھتے تھے۔[4]
Flag Counter