Maktaba Wahhabi

129 - 413
اسی طرح ’باب إذا أم قوماً وھو جنب‘ میں کتاب الآثار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اثر’’ابراہیم بن یزید عن عمرو بن دینار أن علی بن ابی طالب‘‘ کی سند سے ذکر کیا ہے اور امام محمد نے یہ اثر ’باب ما یقطع الصلاۃ[1] میں بیان کیا ہے۔[2] اس اثرکے بارے میں عثمانی صاحب فرماتے ہیں: اس میں ابراہیم بن یزید الخوزی المکی ہے جس کی حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن کہا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض اہلِ علم نے اس پر حافظہ کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ اور علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مختلف فیہ راویوں میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا یہ حدیث حسن ہے البتہ یہ منقطع ہے اور ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ بعض نے ابراہیم کو متروک کہا تو عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: تعجب ہے اس جیسے لوگ راوی کے ضعیف ہونے پر امام محمدپر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مجتہد جس سے استدلال کرتا ہے وہ اس کی طرف سے تصحیح ہوتی ہے اگرچہ سند ضعیف ہی ہو۔ ابراہیم کو اگر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب میں متروک کہا ہے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ امام محمد کے نزدیک بھی متروک ہو۔[3] اسی طرح ایک اور مقام پر[4] بھی اس کی حدیث کوحسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح ’باب ترک رفع الیدین‘ کے تحت مؤطا امام محمد سے حضرت عبد اللہ بن عمر کا ایک اثر ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ سند میں محمد بن ابان اگرچہ ضعیف ہے،مگر وہ جھوٹا تو نہیں اس کی حدیث لکھی جائے گی، امام محمد نے اس سے استدلال کیا ہے اس لیے یہ صحیح ہے کیونکہ مجتہد جب استدلال کرتا ہے تو یہ اس کی تصحیح ہوتی ہے۔ [5] اس کے بعد کوئی ابھام نہیں رہتا کہ امام محمد شیبانی جس روایت سے استدلال کریں وہ صحیح ہے اگرچہ وہ متروک ،ضعیف راوی سے ہو یا بلاغاً ومرسلاً ہو۔ مگر یہ اصول بھی محض تقلیدی تناظر میں ہے۔ بلکہ جہاں یہ اصول مخالف مسلک ہو وہاں اس کی کوئی پاسداری نہیں کی جاتی۔ جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔
Flag Counter