Maktaba Wahhabi

126 - 413
جیسے حسن بن عمارہ ہے کہ وہ مختلف فیہ ہے اور اس کی توثیق کی گئی ہے۔‘‘الخ[1] بلاشبہ حسن عقیدت کا یہی تقاضا ہے مگر یہاں بھی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کیا قاضی ابو یوسف نے یہ فرمایا ہے کہ میرے شیوخ ثقہ ہیں؟ یاکسی بھی محدث نے فرمایا ہے کہ ان کے شیوخ ثقہ ہیں؟ قطعاً نہیں،تویہ محض دعوی ہے جو علمی دنیا میں قابلِ قبول نہیں۔ قاضی صاحب نے کتاب الآثار[2] میں ابان بن ابی عیاش سے روایت لی ہے جو متروک اور کذاب ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اسی طرح حدیث نمبر452 میں عطاء بن عجلان اور نمبر697 میں نصر بن طریف سے روایت ہے جن کا پہلے ذکر گزر چکا ہے۔ قاضی ابو یوسف کے ایک استاد ابو بکر ہیں۔[3] مولانا افغانی نے حاشیہ میں فرمایا ہے کہ یہ ابو بکر الہذلی ہیں جن کا نام سلمی ہے ابن ماجہ کے راوی ہیں اور الخراج میں بھی قاضی صاحب نے ان سے روایت لی ہے۔ جسے امام دارقطنی ،نسائی، علی بن الجنید رحمۃ اللہ علیہم نے متروک اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بثقۃ، لا یکتب حدیثہ بھی کہا ہے، امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن المدینی، یعقوب بن سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بشیء ،امام ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف جداً، ضعیف ضعیف بھی کہا ہے۔ امام احمد، ابن عمار، ابو اسحاق الحربی، ابو احمد الحاکم ،ابن عدی، الساجی، ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہم نے بھی ضعیف حتی کہ غندر نے کہا ہے کان یکذب[4] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے متروک الحدیث کہا ہے۔[5] غالب بن عبید اللہ بھی ان کے استاد ہیں۔[6] جن کے بارے میں امام ابنِ معین رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بثقۃ، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے متروک کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند سے روایت ذکر کر کے لکھا:’ھذا موضوع‘ یہ موضوع ہے۔[7] امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف لیس بشیء ، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف الحدیث لیس بذاک، ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے متروک الحدیث، منکر الحدیث،حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ساقط الحدیث،
Flag Counter