Maktaba Wahhabi

122 - 413
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت میں اس کی روایت جھوٹ پر مبنی نہیں؟ جیسا کہ ہم پہلے نقل کر آئے ہیں۔کیا وہ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے لوگوں کو دھوکا نہیں دیتا تھا؟ اس لیے امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ انھوں نے عمروبن عبید سے جھوٹ کی ہی نفی کر دی ہے۔ اس حقیقت کے بعد یہ کہنا کہ اس کی متابعۃًروایت لینے میں کوئی حرج نہیں، سراسر بے اصولی پر مبنی ہے کیونکہ خود انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ جس راوی کے بارے میں ضعیف جداً، لیس بشيء ،متروک، متھم بالکذب، ترکوہ کے الفاظ سے جرح ہو اس کی روایت نہ لکھی جائے گی نہ ہی اسے اعتباراً واستشہاداً قبول کیا جائے گا جیسا کہ قواعد علوم الحدیث [1] کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے۔ دراصل یہاں بھی یہ بے اصولی مسلک کی کورانہ حمیت کا شاخسانہ ہے۔ اندازہ کیجئے علامہ مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ نے ہدایہ میں حضرت حسن بصری سے اسی اجماع کا دعوی کیا ۔ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے نصب الرایہ[2] میں فرمایا کہ یہ حضرت حسن کا قول ابن ابی شیبہ میں ہے۔ اور سند میں عمرو سے مراد ابن عبید ہے اور وہ متکلم فیہ ہے۔ یہاں انھوں نے عمرو کے بارے میں صرف ’متکلم فیہ‘ جبکہ دوسری جگہ [3] انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ اسے کذاب کہا گیا ہے۔ اب آئے علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ تو انھوں نے فتح القدیر[4] میں اپنے اسلوب کے مطابق ، کہ اکثر وبیشتر وہ تخریج روایات میں نصب الرایہ سے لیتے ہیں، وہ سب کچھ نقل کیا جو نصب الرایہ میں ہے۔مگر ’وھو متکلم فیہ‘کے الفاظ وزن کم کرنے کے لیے حذف کر دیئے۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی البنایہ[5] میں ماشاء اللہ اس سے خاموشی میں ہی بہتری سمجھی ۔ ان کے بعد مولانا عثمانی کی دفاعی کوشش آپ کے سامنے ہے۔جبکہ علامہ ابن ابی العز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’ھذا غیر صحیح عن الحسن‘ یہ قول حسن سے صحیح نہیں۔‘‘ اگر یہ ثابت ہو تو احتمال
Flag Counter