Maktaba Wahhabi

121 - 413
تھا۔ اور جو نیکی سے منسوب کیے جاتے ہیں سلف کا ان میں بہت کلام ہے حتی کہ امام یحییٰ قطان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے جو لوگ نیکی اور تقشف کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ان سے زیادہ صریح جھوٹ بولنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا اور عمرو مذموم، بہت ہی ضعیف الحدیث ہے اپنی بدعت کا علی الاعلان اظہار کرتا تھا۔ لوگوں نے اس کے بارے میں جو کہا وہی ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘ بتلائیے ایسے بدعتی، متروک، کذاب ،لیس بشيء راوی کی اگر کچھ روایات کے متون محفوظ ہوں تو کیا یہ اس کے متروک ہونے کے منافی ہے؟ جیسا کہ عثمانی صاحب مسلکی حمیت میں فرما رہے ہیں۔حالانکہ جھوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے حتی کہ شیطان نے بھی آیت الکرسی کے بارے میں سچی بات کہی تھی۔ رہی بات عبد الوارث بن سعید کی، تو اس میں بھی حضرت موصوف کا گھپلا ہے۔ اس لیے کہ عبد الوراث خود قدری تھا اسی تناظر میں وہ عمروبن عبید کی تعریف کرتا اور اسی مسلکی عقیدت کی وجہ سے اپنی مجلسوں میں اکثر اس کی باتیں کیا کرتا تھا جیسا کہ عبید بن محمد التمیمی نے کہا ہے۔[1] اور کیا بعید ہے کہ عبد الوارث کو عمروبن عبید کی نیکی اورتقشف نے بھی گرویداکر رکھا ہو۔ پھر جو ائمہ کرام اس کے کذب اور متروک ہونے کی گواہی دے رہے ہیں ان کے مقابلے میں عبد الواث کی یہ بات کیونکر درست ہو سکتی ہے؟ کیونکہ قاعدہ تو یہی ہے۔ من علم فھو حجۃ علی من لم یعلم رہی یہ بات کہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ وہ حدیث میں عمداً جھوٹ نہیں بولتا تھا بلکہ وھماً بولتا تھا۔ اولاً: تو یہ قول دیگر محدثین کے اقوال کے مقابلے میں محلِ نظر ہے۔ ثانیاً:حدیث میں عمداً جھوٹ نہیں بولتا تھا تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ مطلق جھوٹ بھی نہیں بولتا تھا؟حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا جو فتوی اس نے نقل کیا کہ نبیذ سے نشہ آئے تو حد نہیں، کیا اس نے اس میں حضرت حسن پر جھوٹ نہیں بولا؟ کیا حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے مرفوع مرسلاً
Flag Counter