Maktaba Wahhabi

119 - 413
جیسا کہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان میں کہا ہے، عبد الوارث بن سعید رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اگر میں یہ نہ جانتا کہ عمرو بن عبید جو روایت کرتا حق ہے تو اس سے کبھی کچھ بھی روایت نہ کرتا جیسا کہ تہذیب[1] میں ہے ابن حبان نے کہا ہے وہ حدیث میں جھوٹ عمداً نہیں وھما بولتا تھا۔اس لیے متابعت میں اس سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں، منفرداًروایت میں وہ احتجاج کے قابل نہیں۔‘‘[2] قارئین کرام سے عرض ہے کہ وہ نہایت اختصار سے ذکر کیے ہوئے الفاظ جرح اور اس کے عقیدہ وفکر کی وضاحت ایک بار پھر دیکھ لیں اور پھر فیصلہ فرمائیں کہ جسے بہت سے ائمہ نے متروک ، لایکتب حدیثہ، لیس بشیء، متھم بالکذب ، کذاب، ساقط الحدیث قرار دیا ہے کیا اس راوی کی روایت متابعت وشواہد میں قبول ہے؟ ہر گز نہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے الرفع والتکمیل کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں۔ پھر امام حسن کا نام لے لیکر جس عیاری سے مسائل بیان کرتا اور ان پر جھوٹ گھڑتا تھا وہ بھی آپ پڑھ آئے۔ اس کے عقائد کی کجی، صحابہ کرام کے بارے میں یاواگوئی، قرآن پاک کے استہزاکی داستان طویل ہے۔ خطیب بغدادی ،امام ابن عدی اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے بڑی تفصیل سے اس کا تذکرہ کیا ہے، جس کی یہاں ضرورت نہیں ۔رہا حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا میزان[3] میں قول کہ ’’امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کئی احادیث ذکر کی ہیں جن کے غالب متون محفوظ ہیں۔‘‘ حالانکہ اس میں تو بس یہ اشارہ ہے کہ وہ روایات صحیح اسانید سے منقول ہیں، اس سے یہ تو لازم نہیں آتا ہے کہ اس کی تمام روایات محفوظ ہیں اور وہ قابلِ اعتبار ہے۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی تو کہا ہے: ’کذبہ ایوب ویونس وترکہ النسائی[4] کہ اس کو ایوب اور یونس نے جھوٹا اور نسائی نے متروک کہا ہے۔ اور دیوان الضعاء[5] میں کہا ہے: ’قال النسائی وغیرہ متروک‘ کہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے متروک کہا ہے۔ اگر متروک کی روایات ثقات
Flag Counter