Maktaba Wahhabi

116 - 413
سادساً: قتادہ کی روایت میں ’تحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلیم‘ کے الفاظ بھی نہیں۔ مولانا صاحب کو اس کی متابعت کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ نیز اس کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا اپنی اس روایت کے خلاف عمل ہے وہ صرف فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے قائل تھے، مگر اس میں فاتحہ سے زائد کا حکم بھی ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جزء القراء ۃ [1] میں مرفوع کے بعد یہی موقوف اثر لا کر اس طرف اشارہ کیا ہے اور احناف کے ہاں تو ایسی صورت میں راوی کا عمل راجح ہے نہ کہ مرفوع حدیث۔ اس لیے صرف قتادہ کی متابعت ذکر کرنا کافی نہیں جب کہ وہ متابعت بھی معلول ہے تو متابعت چہ معنی دارد؟ جس سے یہ حقیقت نصف النھار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ابو سفیان ضعیف بلکہ متروک اور اس کی روایت بھی ضعیف وناقابلِ اعتبار ہے اور مولانا عثمانی کا اس کے برعکس دعوی اور کوشش ان کی مسلکی مجبوریوں کے تناظر میں ہے۔ مزید برآں یہ بھی ملحوظ رہے کہ فرمایا گیا کہ’ فالحدیث حسن لاسیماً اذا کان متابعاً ‘ پس حدیث حسن ہے بالخصوص جب کہ اس کا متابع بھی ہے۔ یعنی اصلاً وہ حسن ہے لیکن جب اس کی متابعت ہو پھر اس کے حسن ہونے میں کوئی ریب نہیں۔ یہی بات انھوں نے ایک اور مقام پر[2] بھی کہی ہے۔مگراس کے برعکس یہ بھی فرمایا گیا کہ’ إن أبا سفیان طریف السعدي متکلم فیہ جداً فلا یعبتر بما رواہ مالم یتابع غیرہ[3] ’’ابوسفیان طریف السعدی بہت متکلم فیہ ہے جب تک اس کا متابع نہ ہو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘جس کی حدیث حسن ہو کیا اس کی حدیث بلامتابع مردود ہوتی ہے؟ ع کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
Flag Counter