Maktaba Wahhabi

115 - 413
’’لہٰذا حدیث حسن ہے بالخصوص جب اس کا متابع ہو جیسا کہ سندھی نے کہا ہے ان کے الفاظ ہیں کہ الزوائد میں ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کی سند میں ابوسفیان سعدی ہے ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ محدثین کا اس کے ضعف پر اجماع ہے، لیکن ابو سفیان کی قتادہ نے متابعت کی ہے جسے ابنِ حبان نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔‘‘ مگر سوال یہ ہے علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ کے قول کہ طریف کے ضعف پر اجماع ہے، کو علامہ سندھی اور علامہ بوصیری نے زوائدابن ماجہ میں تو تسلیم کر لیا،مولانا صاحب نے اسے نقل کیا،مگر کیا انھوں نے یہاں اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے؟ ہر گز نہیں۔ رہی بات قتادہ کی متابعت کی تو محدثین کے نزدیک یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ ان کے نزدیک قتادہ مدلس ہے اور روایت معنعن ہے، ثانیاً: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے : ’لم یذکر قتادۃ سماعاً من أبی نضرۃ فی ھذا‘ کہ اس میں قتادہ نے ابو نضرہ سے سماع ذکر نہیں کیا۔‘‘ ثالثاً: امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اسے ابو سلمۃ عن ابی نضرۃ سے موقوفاً روایت کرتے ہیں امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ اس کا شعبہ سے مرفوع ہونا صحیح نہیں۔ [1] رابعاً: امام ابن عدی نے بھی فرمایا ہے کہ یہ روایت صرف فاتحہ کے ذکر میں اصح ہے۔[2] خامساً : حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے: ((أعلہ البخاری بعنعنۃ قتادۃ وھو مدلس وأشار الدارقطنی فی العلل إلی أن الراجح وقفہ)) [3] ’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے قتادہ کے عنعنہ کی وجہ سے معلول کہا ہے اور قتادہ مدلس ہے، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے العلل میں اشارہ کیا ہے کہ راجح اس کا موقوف ہونا ہے۔‘‘
Flag Counter