Maktaba Wahhabi

111 - 413
عدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس سے ثقات نے روایت لی ہے اور اس کی اسانید مستقیم ہیں۔ جسسے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے جو کہا ہے کہ ’’ اس کے ضعف پر اجماع ہے۔‘‘ درست نہیں۔ بلاشبہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر سورۂ یٰس میں پہلی روایت ابو سفیان کی سند سے ذکر کی ہے اور اسے ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین کی خود مولانا موصوف کتنی پاسداری کرتے ہیں اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اور انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے متابعت وشواہد کی بنا پر بھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ یہاں بھی ابو سفیان کی متابعت صحیح مسلم وغیرہ میں سعید الجریری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کی ہے۔[1] بلکہ مولانا موصوف نے تو قواعد علوم الحدیث [2] میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ متساہل ہیں ان کے الفاظ ہیں: ’ منھم متسمّح کالترمذی والحاکم‘ بلکہ اعلاء السنن میں بھی انھیں متساہل کہا ہے۔[3] ان اعترافات کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین کی بنیاد پر حدیث کو حسن کہنا اور ابو سفیان کو حسن درجہ کاراوی سمجھنا کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے’’ اس سے ثقات نے روایت لی ہے اور اس کی اسانید مستقیم ہیں‘‘ تو کیا کسی ضعیف یا متروک سے ثقات کے روایت لینے سے وہ راوی ثقہ ہو جاتا ہے؟ حالانکہ خود حضرت مولانا صاحب نے اس بارے میں اختلاف نقل کیا ہے۔ چنانچہ تدریب الراوی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جب عادل کسی ایسے راوی سے روایت کرے جس کا وہ نام لے تو یہ اکثر محدثین وغیرہ کے نزدیک تعدیل نہیں ہو گی اور یہی صحیح ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے وہ تعدیل شمار ہو گی کیونکہ اگر جرح کا اسے علم ہوتا تو ضرور ذکر کرتا ورنہ وہ دین میں دھوکہ دینے والا ہوتا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ایسا عادل صرف عادل سے ہی روایت کرتا ہو تو اس کی کسی راوی سے روایت تعدیل ہو گی علامہ آمدی، ابن حاجب وغیرہ اصولیین یہی
Flag Counter