Maktaba Wahhabi

110 - 413
لابی یوسف میں اس سے پہلی حدیث مروی ہے۔ جبکہ کتاب الآثار للشیبانی میں یہ حدیث نمبر 4 ہے۔امام احمد، ابن معین، ابو حاتم، بخاری ،ابو داود، نسائی ،دارقطنی اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔حتی کہ علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے:’اجمعوا علی انہ ضعیف الحدیث‘ ’’تمام محدثین کا اجماع ہے کہ وہ ضعیف ہے۔‘‘ بلکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بشیء اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک، لیس بثقۃ کہہ کر سخت جرح کی ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ’لا یکتب حدیثہ‘ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ’واھی الحدیث‘ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے وہ مغفل اور احادیث میں وہم کا شکار تھا حتی کہ انہیں ادل بدل کر دیتا اور ثقات سے ایسی روایتیں بیان کرتا جو اثبات کی حدیث سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس کے بیان کردہ متون احادیث پر انکار کیا گیا ہے وہ ایسے متون ذکر کرتا جسے اور کوئی بیان نہیں کرتا تھا۔ البتہ اس کی اسانید مستقیم ہوتی تھیں۔ یعقوب بن سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ان میں شمار کیا ہے جن کی روایات سے گریز کیا جاتا تھا۔ بزار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے وہ ایسی احادیث بیان کرتا ہے کہ کسی نے بھی اس کی متابعت نہیں کی، امام عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ قطان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس سے کوئی روایت نہیں لی۔[1] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ضعیف کہا ہے۔[2] بلکہ اس کے ضعف پر اتفاق نقل کیا ہے۔ حتی کہ اسے ضعیف متروک بھی کہا ہے۔ حافظ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔[3] مولانا عثمانی نے ابو سفیان کی روایت ترمذی کے حوالے سے اعلاء السنن[4] میں نقل کی ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے ۔ائمہ جارحین کے اقوال کے مقابلے میں ان کے دعویٰ کی بنیادیہ ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔ اور ابن
Flag Counter