مسلما ن مر داورمسلما ن عو رتیں با ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں،وہ اچھے کاموں کاحکم دیتے ہیں اور برے کا موں سے روکتے ہیں،وہ نما زقا ئم کرتے ہیں اور زکاۃ اداکرتے ہیں،اللہ اور اس کے رسو ل کے اطاعت گزار ہیں،یہی لو گ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا،بے شک اللہ غا لب حکمت والا ہے۔
اسی طر ح ایک اور مقام پر ارشا د ہو تا ہے:
﴿ اِنَّمَاوَ لِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلہُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ راَکِعُوْنَ﴾(المائد ہ:۵۵)
(ایمان والو) تمہا رے دو ست صر ف اللہ،اس کے رسو ل اور ایما ن والے ہیں۔جو نماز قا ئم کرتے ہیں،زکاۃ ادا کرتے ہیں،اور اللہ کے حضور جھکتے ہیں۔
قر آ ن پا ک سے بر اہ راست کو ن خو ش نصیب مستفید ہو تے ہیں ؟ اور یہ کن کے لیے ہدایت و بشا رت ہے،سورہ النمل میں بتلا یا گیاہے :کہ وہ مو من ہیں جن کے اوصا ف یہ ہیں :
﴿اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّ کٰوۃَ وَھُمْ بِا لْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾( النمل :۳)
کہ وہ نما ز پڑھتے ہیں،زکا ۃ ادا کرتے ہیں اور آ خرت پر یقین رکھتے ہیں۔
با لکل یہی بات سورہ البقرہ کی ابتد اء میں بھی فر ما ئی گی،مگر و ہاں ’’زکا ۃ‘‘ کی بجا ئے ’’وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْ نَ ‘‘فر ما یاگیا ہے،کہ جو کچھ ہم نے دیا اس میں سے خر چ کر تے ہیں،جو زکاۃ سے و سیع ترمفہو م کو شا مل ہے۔
نماز و زکاۃ کی عد م ادا ئیگی پر حکم
ان آ یات سے یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ نما ز و زکا ۃ کے بغیر ایما ن کا دعو ی مشکوک،بلکہ نا قا بل اعتبار ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کے تارک کی جا ن و ما ل کی حر مت و حفاظت ختم ہو جا تی ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
|