Maktaba Wahhabi

87 - 187
کہ مسلما نوں کے اغنیا ء سے وصول کی جا ئے اور ان کے فقر اء میں خرچ کی جائے۔ یہ ’’تؤخذ ‘‘ کا تقا ضا بھی تبھی پو را ہو تا ہے جب اجتما عی طو ر پر اغنیا ء سے زکاۃ و صول کی جائے اور مسلما ن جما عت کے فقیر،مسکین،مفلس اور بے سہا را لو گوں میں تقسیم کی جائے۔مصا رف زکاۃ میں ایک مستقل مصرف ’’و العا ملین علیھا‘‘ ہے کہ زکا ۃ،زکا ۃ وصول کر نے وا لوں کا بھی حق ہے،جواس مشن کے لیے وقف ہیں کہ لوگوں سے زکاۃوصو ل کر کے بیت المال میں جمع کرائی جا ئے،بیت الما ل میں زکاۃجمع کر نے کی اہمیت کا اند ازہ اس سے بھی لگا یا جاسکتا ہے،کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد تر ین حاکموں کا تذ کرہ کیا،اور ان کے ظلم و تعد ی سے خبر دار کیا،تو صحا بہ کر ام نے عرض کیا کہ ہم ان کے خلاف نہ لڑیں ؟آ پ نے فرمایا:’’لاما صلوا‘‘جب تک وہ نمازپڑھیں،ان سے مت لڑو۔بنو امیہ کے دور میں جب بے اعتد الی ہونے لگی تو اکثر صحا بہ کر ا م نے پھر بھی بیت ا لما ل میں زکاۃجمع کرانے کا حکم دیااور فر مایا: کہ امرا ء جب تک نماز پڑھیں زکاۃ ان کے ہاں جمع کرؤ۔ ( کتا ب الا مو ال لا بی عبید :ص۵۶۸،۵۶۹و غیرہ ) امام ابو عبید رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے دو ر خلا فت تک تو زکا ۃ بیت المال میں جمع ہوتی تھی،اس کے بعد بعض نے از خو د بھی زکاۃ تقسیم کر نا شر و ع کر دی،فر ما تے ہیں : کہ امو ال با طنہ رو پے اور سو نا چاند ی کی زکا ۃ توخو د بھی دے سکتا ہے مگر امو ا ل ظا ہرہ یعنی جانو ر اور زمین کا عشر یہ بیت الما ل میں ہی جمع ہوناچاہیے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول بھی اس کو مؤید ہے کہ انہوں نے بھیڑ کے بچے کازکاۃ میں وصول کر نے کا ذکر کیاہے۔سو نا اور چاند ی کا نہیں۔( الا مو ال :ص۵۷۳) بیت الما ل کے ذریعے اگر زکا ۃ کاانتظا م و انصرا م ہو تو ’’ المحروم ‘‘ محرو م نہیں رہتا،عزت نفس مجروح نہیں ہو تی،احسا ن جتلا نے سے انسا ن بچ جاتا ہے،در پر دہ مال مستحقین تک پہنچ جاتا ہے اور نمو دو نمائش سے انسا ن محفو ظ ہو جاتا ہے۔ انفا ق فی سبیل اللہ زکاۃ کاایک نصا ب ہے،اور اشیا ء زکاۃ کی مقد ار اور وقت مقر ر ہے،مگر یہ ساری
Flag Counter