آنکھوں سے اشارے بھی امانت کے منافی ہیں
کسی مسلمان بھائی کے گھر میں جھانکنا ہی خیانت نہیں،بلکہ مجلس میں آنکھوں سے اشارے بھی امانت کے منافی ہیں،چنانچہ فتح مکہ کے روز جن رؤسائے کفار کو قتل کرنے کا حکم تھا،ان میں سے ایک عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ بھی تھا۔عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاں چھپا ہوا تھا انہوں نے بچ بچا کر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاکھڑا کیا،اور عرض کی یارسول اللہ اس کی بیعت لے لیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا،اور اس کی طرف تین دفعہ دیکھا۔(وہ ہاتھ بڑھتا مگر) آپ ہر بار انکار کردیتے پھرآپ نے بیعت قبول کر لی،اس کے بعد رسول اللہ صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم میں سے کوئی بھی سمجھ دار نہیں تھا کہ جب میں نے اس کی بیعت سے اپنا ہاتھ روکا تو وہ اسے قتل کردیتا،صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ہمیں آپ کے دل کا حال تو معلوم نہیں تھا آپ ہماری طرف اپنی آنکھ سے اشارہ کردیتے آپ نے فرمایاکہ
اِنّہ لا ینبغی لنبی أن تکون لہ خٰآئنۃ الأعین
بے شک کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کی آنکھیں خیانت کرنے والی ہوں۔(ابوداؤد :ج۴ص ۲۲۵)
اس لئے اپنا کام نکالنے کے لئے آنکھوں سے ایسے اشارے بھی خیانت ہیں،جن سے عمومااہل مجلس غافل ہوں،اسلام سیدھا سادہ دین ہے اور صاف ستھرے طرز معاشرت کی تلقین کرتا ہے۔وہ اس قسم کے انداز کو بھی پسند نہیں کرتا جس میں خیانت کا ادنیٰ شائبہ بھی پایا جاتا ہے۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ :
اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّ یَآئِ وَ لِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۔
(الدعو ات الکبیر رقم ۲۲۷،وا سنا دہ ضعیف )
اے اللہ !میرا دل نفا ق سے میرا عمل ریا سے،میری زبا ن جھوٹ سے اور
|