و ثبت عن جمع من السلف کراھۃ تکلف المسا ئل التی یستحیل و قوعھا عادۃ أو یندر جدا۔( فتح البا ری :ص ۴۰۷،ج۱۰)
کہ سلف کی ایک جما عت ان مسا ئل کے با رے تکلف کو مکر وہ سمجھتی ہے،جن کا واقع ہو نا عادۃ محا ل ہے یا بہت شا ذو نا در ہیں۔
بلا شبہ اس با رے میں فقہا ء اہل الر ائے کا مشغلہ بڑا ہی و سیع و عجیب رہا ہے،جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔حضرت مو لا نا خلیل احمد سہا رنپو ری رحمہ اللہ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے: کہ کتب فقہ میں بعض ایسے سوال مندرج ہیں کہ محا ل عادی ہیں۔( البر اھین القا طعہ: ص۱۳)غو ر فرمایا آ پ نے کہ سلف میں جو بات ناپسند تھی فتنہ کے دور میں وہی خو ب سے خو ب تر ہو تی چلی گئی۔ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
اور ایسی کو شش بھی کثرت سو ال اور قیل و قا ل کی ہی ایک شکل ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
لا یعنی با تیں وقت کاضیا ع
اس جہاں میں ایک قیمتی متاع وقت ہے ما ل بلا شبہ بہت بڑی نعمت ہے۔جو بڑی محنت و مشقت سے حاصل ہو تا ہے۔یہ ’’قو ام ‘‘ انسا نیت ہے،مگر یہ بھی تبھی جب اس کے حصو ل میں و قت ضا ئع نہ کیا جائے،پھر ما ل تو جمع ہو تا ہے اور ذخیرہ کر لیا جاتا ہے مگر گیا وقت پھر ہا تھ آ تا نہیں،بچپن گیا،جو انی کیاگئی کہ زند گی کی بہا رہی چلی گئی،صحت و جو انی کی شام ہو نے لگی تو بڑھا پا دستک دینے لگا،جو چلنے کے لیے لا ٹھی،دیکھنے کے لیے چشمہ اور مختلف پر یشا نیوں کی سو غات دیتا ہے،اس لیے وقت حقیقۃً ما ل و زر سے بھی قیمتی بلکہ وقت ہی زند گی ہے۔انسا نی زند گی اس وقت سے و ابستہ ہے اس کو لا یعنی باتوں اورمشغلوں میں ضائع کر دیاتوگویازندگی ہی ضائع کردی سب سے زیادہ نقصا ن اٹھانے والا یہی غا فل شعار،وقت کی قدروقیمت نہ پہنچا ننے و الا ہے۔حضرت محمد بن حا تم رحمہ اللہ الترمذی فرما تے ہیں :
رأس مالک قلبک ووقتک وقد شغلت قلبک بھواجس
|