Maktaba Wahhabi

98 - 187
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جا ئیں اور آ پ سے دریافت کر یں کہ میں صد قہ تمہیں دوں تو کیا یہ صدقہ ادا ہو جا ئے گا،اگر یوں نہ ہو تو پھر میں کسی اور کو صدقہ دوں،حضرت عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم خو د جا کر یہ معلو م کر لو،چنانچہ میں گھر سے نکلی تو آپ کے دروازے پر ایک انصا ری عو رت کو کھڑئے ہو ئے دیکھا،اس کا بھی یہی مسئلہ تھا جو مجھے درپیش تھا،حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ ہما رے پا س آے تو ہم نے انہیں کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کر یں کہ دو عو رتیں یہ مسئلہ در یا فت کرتی ہیں کہ اگر ہم اپنے مستحق خا و ند پر اور ان چند یتیموں پر جو ہماری کفا لت میں ہیں صدقہ کر یں تو کیا یہ صدقہ در ست ہو گا،چنا نچہ حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ نے جا کر اس کے با رے میں سو ال کیا تو آپ نے فر مایا: لھما اجران أجر القرابۃ و أجر الصدقۃ۔ ( بخاری: ج۱ص۱۹۸ومسلم :ج۱ص۳۲۳) انہیں دو گنا اجر ملے گا قر ابت داری کا اور صدقہ کا۔٭ اس لیے مستحق رشتہ داراور قر ابت دار زیادہ حقد ار اور زیا دہ با عث اجر و ثو اب ہیں کہ ان پر صدقہ کیا جا ئے،بلکہ طبر انی میں سند جید سے حضرت جر یر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مستحق رشتہ دار اپنے رشتہ دا ر کے پا س جا کر سو ا ل کرتا ہے،اور وہ اسے دینے کی بجا ئے بخل کا مظا ہرہ کرتا ہے،اللہ تعا لیٰ جہنم کا سا نپ اس کے گلے کا طوق بنا دیں گے۔(صحیح التر غیب: ج۱ص۵۳۵) اس مفہو م کی ایک رو ایت سنن ابی داود،تر مذی،اور نسا ئی میں حضرت معا ویہ رضی اللہ عنہ بن حیدہ سے بھی مر وی ہے،جس سے واضح ہو تا ہے کہ سوال کے باوجو د رشتہ دار کو صدقہ سے محرو م رکھنا اللہ تعا لیٰ کی نا راضی کا با عث ہے۔ صدقات کی حکمت انسا نی زند گی کا ہرکا م کسی نہ کسی سبب کی بنا پر ہے،ان اسبا ب و محر کات کا گہری
Flag Counter