Maktaba Wahhabi

134 - 534
فقہاء حنفیہ کے نزدیک بھی مضاربہ کا مال صرف تجارت اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں میں ہی لگایا جاسکتا ہے ،چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے: " فينتظم العقد صنوف التجارة وماهومن صنيع التجار". [1] ’’مضاربہ کا عقد تجارتی سرگرمیوں کو ہی شامل ہے جبکہ یہ ( ایک خاص مسئلہ کی طرف اشارہ)تاجروں کا کا م نہیں ہے۔ ‘‘ دوسری جگہ ایک مسئلہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ’’ کہ یہ امام محمد اور امام ابو حنیفہ ;کے نزدیک اس لیے جائز نہیں کہ یہ تجارت میں شامل نہیں اور عقد مضاربہ کا مقصد صرف تجارت میں کسی کو ایجنٹ بنا نا ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’جب یہ تجارت نہیں ہے تومضاربہ میں بھی شامل نہیں ہے‘‘۔[2] علامہ زکریا انصاری رقم طراز ہیں: " لَوْ قَارَضهُ عَلَی أَنْ يشْتَرِیَ بِالدَّرَاهم نَخْلًا لِيسْتَغِله ، وَالرِّبْحُ بَينهما ؛ لِأَنَّ مَا حَصَلَ لَيْسَ بِتَصرف الْعَامِلِ وَإِنَّماهوَ مِنْ عَيْنِ الْمَالِ" . [3] ’’اگر کوئی اس طرح مضاربہ کر ے کہ وہ دراہم سے کھجوروں کے درخت خریدے گا تاکہ ان کی آمدن حاصل کر ے اور نفع دونوں کے درمیان تقسیم ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہوگاکیونکہ اس صورت میں جو نفع حاصل ہوا ہے وہ مضارب کے تصرف کا نتیجہ نہیںہے وہ تو خود مال کا کمال ہے۔‘‘ جب کہ اسلامی بینک مضاربہ کی بنیاد پر لیا گیا سرمایہ اجارہ وغیرہ میں بھی لگاتے ہیں جس سے اسلامی بینکوں میں رائج مضاربہ مشکوک قرار پاتا ہے ۔ چونکہ اس نقطہ نظر کے حق میں دلائل نہیں ہیں اس لیے اسلامی بینکاری کے حامی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بنیادی طور پر مضاربہ تجارت میں ہی ہو تاہے ۔
Flag Counter