Maktaba Wahhabi

104 - 534
حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیاءفروخت کرنے کا حکم دے،اگر وہ حکم کی تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے۔ جیسا کہ الموسوعةالفقهية،ج2،ص95 میں ہے : ’’جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس (ذخیرہ اندوز)کو اس مال ہی کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ چوتھی صورت: یہ ہے کہ حکومت کو مقاصدِ عامہ کے لئے کسی جگہ( جیسے دوکان،گھر وغیرہ) یا کسی چیز کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ یا چیز زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے قیمت کی ادائیگی کرے۔البتہ حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو اس کی جائیدا د وملکیت سے محروم نہیں کر سکتی۔ چوتھا مسئلہ : بیع التلجئۃ (مجبوری میں کی جانے والی غیر حقیقی بیع ) کا حکم فقہاء کی اصطلاح میں بیع التلجئۃ سے مراد وہ معاملہ ہے جس میں فریقین (خریدار و فروخت کنندہ) دلی ارادہ کے بغیر،محض دکھلاوہ کی غرض سے ایک تصوّراتی سودا کریں اور حقیقت میں اُس کا کوئی ارادہ وحیثیت نہ ہو،اور اس سے عاقدین کا مقصد ظالم حاکم یا کسی دشمن کے خوف سے بچنا ہو لیکن تمام ارکان و شرائطِ بیع کی تکمیل کے ساتھ حیلہ کے طور پر یہ سودا کیاجائے۔ اس بیع کو شافعیہ ’’بیع الأمانۃ ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ۔ کیا ایسی صورت میں شرعاً یہ بیع درست متصور ہوگی کہ نہیں ؟؟ کیونکہ عاقدین کا مقصد اگرچہ اس سے حقیقی بیع نہیں ہےلیکن بیع کے تمام شرائط و ارکان پورے ہیں ۔ ایسے عقد کےصحیح یا باطل ہونے کی دونوں آراء اہلِ علم میں موجود ہیں لیکن دلائل کی روشنی میں راجح و درست رائے یہی ہے کہ ایسا عقد شرعاً باطل ہے، کیونکہ:  باہمی و حقیقی دلی رضامندی اس عقد میں مفقود ہے ، جوکہ کسی بھی بیع کی درستگی کے لئے بنیادی شرط ہے ۔
Flag Counter