﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاo وَقَدْ خَا بَ مَنْ دَسّٰھَا ﴾( الشمس:۹،۱۰ )
بے شک وہ کا میا ب ہواجس نے اپنے نفس کو پا ک صا ف کر لیا،اور نا مرا د ہوا جس نے اس کو گدلا کیا۔
’’ زکا ۃ ‘‘ اور صدقات سے ہی انسا ن زہد کا درجہ حاصل کرتاہے،اور ما ل کی حر ص وطمع دل سے نکل جا تی ہے،بخل کی بیما ری بھی جا تی رہتی ہے،اور ان دو نوں سے پیدا ہو نے والی دوسر ی روحانی بیماریوں اور آلودگیوں سے بھی انسا ن بچ نکلتا ہے۔
انفا ق خیرکا اور بخل شر کامجمو عہ ہے
شیخ احمد بن جعفر الخزرمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ دنیاو آ خرت میں خیر کی بنیاد صدقہ اور شر کی بنیاد بخل ہے اللہ تعا لیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَأَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَ اتَّقٰیo وَ صَدَّقَ بِا لْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰیo وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَا سْتَغْنیٰo وَکَذَّبَ بِا لْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی﴾ (اللیل: ۵تا ۱۰)
پس جس نے اللہ کی راہ میں خر چ کیا،تقو ی اختیا ر کیا،اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم اسے آ سا ن راہ پر چلنے کی سہو لت دیں گے،اور جس نے بخل کیا اور بے پر و اہی اختیار کی اور اچھی بات کو جھٹلا یا تو ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہو لت دیں گے۔گو یا ایما ن اور پر ہیز گاری کے سا تھ سا تھ اللہ کی راہ میں خر چ کر نا نیکیوں کو آ سا ن کر دیتا ہے،جبکہ بے پر و اہی اور کفر کے سا تھ سا تھ بخل مشکلات کا با عث ہے۔اپنی ضرورت کے با وجو د اللہ کی راہ پر خر چ کر نے اور بخل سے اپنے آ پ کو بچا نے والوں کے لیے فلاح و فوزکی بشا رت دی ہے چنا نچہ ارشا د ہو تا ہے :
﴿ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِھِمْ وَلوکَا نَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ط وَمَن یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾( الحشر :۹)
اوروہ ان کو اپنی ذات پر تر جیح دیتے ہیں خو اہ خو د فا قہ سے ہوں،اور جو شخص نفس کی بخیلی سے بچا لیا گیا ایسے لو گ ہی کا میا ب ہیں۔
|