Maktaba Wahhabi

102 - 534
 شریعتِ مطہّرہ میں خرید و فروخت سے متعلقہ ہدایات و احکامات موجود ہیں ، اور شریعت نے خرید و فروخت کےانعقاد کے سلسلہ میں کچھ خاص و معیّن الفاظ مقررکرنے کے بجائے اسے معاشرہ میں رائج عرف و طور طریقوں پر چھوڑ دیا ، اور جو ناجائز طریقے ہیں وہ بتادیے ،اور باہمی حقیقی رضامندی کی قید لگادی تاکہ وہ جو بھی معاملات کریں انہیں باہمی حقیقی رضامندی و خوش اسلوبی سے طے کرلیں۔ دوسرا مسئلہ: ’’بیع المُکرَہ‘‘ (زبردستی کی بیع) کا حکم فقہاء کی اصطلاح میں " إکراہ " سے مراد:’’ایسا کام جسے کوئی انسان کسی دوسرے کے مجبور کرنے پر کرے جس میں اس کی کوئی رضامندی و اختیارنہ ہو‘‘۔ یہاں مراد ایسی بیع ہے جوخریدار یا فروخت کنندہ کو مجبور کرکے ناحق اورزور زبردستی سے کروائی جائے،،خریدار و فروخت کنندہ کو اکراہاً بیع پر آمادہ کرنا شرعاً ،قانوناًو اخلاقاً کسی طور بھی درست و جائز عمل نہیں ، اگرچہ وہ مجبور کرنے والا حاکمِ وقت ہی کیوں نہ ہو ! اگر کسی پر زبردستی کرکےمجبوراً اسےکچھ خریدنے یا اسے اس کا سامان بیچنےپر مجبور کیا جائے تو ایسا کرنے سے یہ بیع شرعاً باطل و فاسد ہوگی اور ا س پر کوئی مؤثرنتائج مرتّب نہیں ہوں گے۔ بلکہ ایسے معاملات میں شریک ہونے والوں کیلئے سخت وعید وارد ہوئی ہےانہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی انسان کے لئے اپنے (دینی)بھائی کے مال سے اُس کی رضا و خوشی کے بغیر کچھ بھی لینا جائز نہیں‘‘۔[1] اور دوسری روایت میں فرمایاکہ:’’ تم میں سے کوئی بھی اپنے (دینی) بھائی کے مال کو اس کی رضا وخوشی کے بغیر مت خریدے‘‘۔[2] مذکورہ روایات سے اس مسئلہ کی نزاکت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، لہٰذا اگر خریدار یا فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہو کہ سودا طرفین میں سے کسی ایک کی بھی رضامندی و خوشی کے بغیر ہو رہا ہے تو سودا کرنا جائز نہیں ہے
Flag Counter