Maktaba Wahhabi

144 - 187
ہوگئیں،تو والد حضرت شعیب علیہ السلام نے خلاف معمول جلدی گھر واپس آنے کا سبب پوچھا،تو انہوں نے اصل ماجرا سنا دیا،حضرت شعیب علیہ السلام نے گوارا نہ کیا کہ ایسے محسن کو نظرانداز کردیں بیٹی کو بھیجا کہ انہیں بلا لائے تاکہ کچھ نہ کچھ احسان کا بدلہ چکایا جائے،قصہ مختصر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لے گئے،تو موقعہ کی مناسبت سے ایک بیٹی نے عرض کی،کہ ہم سے روز روز یہ کام مشکل ہے،اباحضور! آپ انہیں اپنا ملازم رکھ لیں،چنانچہ الفاظ ہیں: ﴿ قَالَتْ اِحْدَھُمُا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہٗ اِنَّ خَیْرُ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ اْلقَوِیُّ الْاَّمِیْنُ ﴾(القصص: ۲۶) پھر ان دو میں سے ایک نے کہا اے ابا جی! ان کو نوکر رکھ لیں کیونکہ اچھا نوکر وہی ہے جو قوی اور امانت دار ہو۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان دونوں اوصاف کا خوب تجربہ ہوچکا تھا ملازم وہی بھلا جس کے قو ائے جسمانی مضبوط ہوں اور خدمت کی بجا آوری میں خیانت و بددیانتی سے کام نہ لے بلکہ امانت دار ہو،چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مسافری میں اس وصف امانت کے باعث نوکری بھی مل گئی اور بالآخر بیوی بھی،اسی سے آج تک یہ اصول چلا آتا ہے،کہ مالک اور آقا کے ہاں اسی ملازم اور غلام کو عزت ملتی ہے جو امانتدار ہوتا ہے،خائن اور بددیانت نوکر دردر کی ٹھو کر یں کھاتا پھر تاہے،تجا رت میں بھی اسکو شہرت اورنیک نا می ملتی ہے جو امانت کی پاسداری اور وعدہ وفا کرتا ہے۔ امانتدار تاجر اس کا دنیوی کاروبار ہی بام عروج تک نہیں پہنچتا بلکہ آخرت میں بھی انبیاء وصلحاء کا رفیق بنتا ہے،چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: التاجر الصدوق الأمین مع النبین و الصدیقین والشھدآء۔ (ترمذی و حسنہ،صحیح التر غیب: ج۲ص۳۴۲) سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے روز انبیاء،صدیقین اور شھداء کے ساتھ ہوگا۔
Flag Counter