معا ذہ رضی اللہ عنہ ذکر کیا ہے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بظا ہر رجحا ن اس طر ف ہے اس کا نا م معا ذہ رضی اللہ عنہ ہے ( الاصابۃ :ص۱۸۸ج۸) عبد اللہ بن ابی اسے بد کا ری پر مجبو ر کرتا اور ما رتا مگر وہ اس سے انکا ر کر دیتی۔اس نے رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت اقد س میں حاضر ہو کر شکا یت کی کہ میر ا آقا مجھے بدکاری پر مجبور کرتا ہے،اس پر یہ آ یت نا ز ل ہو ئی کہ: وَلَا تُکْرِ ھُوا فَتَیَا تِکُمْ عَلٰی الْبِغَآ ئِ (النو ر:۳۳ ) اپنی لو نڈیوں کو بدکا ری پر مجبو ر نہ کرو۔
(صحیح مسلم و غیرہ الا صا بہ تفسیر ابن کثیر:ص۳۸۵ج۳)
اس معصیت کا ارتکا ب تو بڑی چیزہے اگر کسی پر اس کا اتہا م لگ جاتا ہے،تو وہ اسے برداشت نہ کر سکتی،حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہ کے کا نوں میں جب و اقعہ افک کی بھنک پڑی تو ان کے ہو ش ا ُڑ گئے،بے ہو ش ہو کر گر پڑیں فکر و غم سے بخا ر ہو گیا،اور انتہا ئی کمز ور ہو گئیں،بشر ی کمز و ری کی بنا پر اگر کسی سے کوئی اکا دکا و اقعہ ہوا تو اپنے ایمان ہی کی بد و لت اسے چھپانے کی بجا ئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہو کر اس گناہ سے پاک صاف ہونے کی استد عا کرتا اور رجم کی سز ا بر دا شت کر کے جنت کو سد ھارتا۔رضی اللہ عنہم ورضواعنہ
بد کا ری سے بچنے کا طر یقہ
سو رۃ النو ر کی آ یت نمبر 30کے حو الے سے معلو م ہو تا ہے کہ شرمگاہ کی حفا ظت سے پہلے ( غض البصر)نظر کو نیچا رکھنے کا حکم ہے،یہ اس بات کا اشا رہ ہے کہ بدکا ری سے بچنے اور شرمگاہ کو محفو ظ رکھنے کا او لین ذریعہ نظر کی حفا ظت ہے،کہ وہ بہر نوع غیر محرم کی طر ف نہیں ا ٹھنی چا ہیے،چہ جا ئیکہ اس کو ٹکٹکی لگا کر دیکھا جا ئے،اور اپنی نگاہوں کو اس پر مرکوزکر دیا جا ئے،اسی طر ح سو رہ ء غا فر میں ہے کہ:
﴿ یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ﴾۔(غافر: ۱۹)
کہ اللہ سبحا نہ وتعا لیٰ آنکھوں کی خیا نت اور جو کچھ تم اپنے سینوں میں چھپا تے ہواسے جانتے ہیں۔
اس میں بتلا یا گیا ہے کہ اقو ال و افعا ل کے کیا معنی۔اللہ تعالیٰ تو تما م احوال و
|