Maktaba Wahhabi

116 - 534
کی ذمہ داری ہے جسے شریعت یتیم کے مال میں جائز و حلال طریقہ سے اس وقت تک تصرّف کی اجازت دیتی ہے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے یا ممیز یعنی صحیح اور غلط میں فرق پہچاننے والا نہ ہوجائے۔ ولی اور وکیل میں فرق: مذکورہ چاروں صورتوں میں ملکیت نہ ہونے کے باوجود تصرّف کا اختیار حاصل ہےلیکن پہلی تین صورتیں وکالت ہیں جن میں تصرف کا اختیار مالک کی طرف سے حاصل ہوتا ہے جبکہ چوتھی صورت میں یعنی ولی کو تصرّف کا اختیار شرع کی طرف سے حاصل ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم پانچویں شرط:خریدی ہوئی چیزکوقبضہ میں لینا اورقبضہ سے قبل اُسے فروخت نہ کرنا خرید و فروخت کی شرائط میں سے ایک اہم وبنیادی شرط جس سے آج عوام الناس بالخصوص کاروباری و تاجر حضرات بہت غفلت برتتے ہیں وہ قبضہ و انتقال سے قبل ہی خریدی ہوئی شےکا آگے سودا کردینا یعنی اُسے بیچ دینا ہے جو شرعی لحاظ سے ناجائز عمل ہے۔ لہٰذاخریدا ہوا مال قبضہ میں لیں اوراُسےخریدی ہوئی جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کریں اور پھر اُسے آگے جہاں چاہیں فروخت کریں ،قبضہ سے پہلے اور خریدی ہوئی جگہ پر بیچنا دونوں ہی شرعاً ممنوع ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’جوشخص غلہ خریدے،تو اُسےاس وقت تک فروخت نہ کرےجب تک کہ وہ پوری طرح اُسے اپنے قبضہ میں نہ کرلے‘‘۔[1]اسی طرح صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ خریدتے توہمارے پاس(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے)ایک شخص کو بھیجاجاتا جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم اُسے بیچنےسےپہلےخریدی ہوئی جگہ سے اُٹھا کرکسی دوسری جگہ منتقل کرلیں‘‘۔[2] سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےخریدی ہوئی جگہ پر
Flag Counter