نہیں،آپ نے فرمایا:کوئی بھی اپنی بہن کے حق میں یہ برد اشت نہیں کرتا: اچھا یہ بتلا ؤ اس کو تم اپنی پھو پھی کے لئے پسند کرو گے ؟ اس نے عر ض کیا :جی ہرگز نہیں،رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: کو ئی شخص بھی اسے اپنے پھو پھی کے لیے پسند نہیں کرتا،اچھا یہ بتلا ؤ،تم زنا کو اپنی خا لہ کے لیے برداشت کرو گے ؟ وہ بو لا نہیں یا رسو ل اللہ،آ پ نے فرمایا: کو ئی بھی اس کو اپنی خا لہ کے با رے میں بر داشت نہیں کرسکتا۔اس گفتگو سے سائل کو یہ باور کر انا مقصو د تھا،کہ جب تم اپنی ماں،بیٹی،بہن،پھو پھی اور خا لہ سے زنا کو برداشت نہیں کر سکتے تو تم جس کسی سے اس بد کا ری کا ارتکا ب کرو گے وہ بہر نو ع کسی نہ کسی کی ما ں،بہن،بیٹی،پھو پھی یا خا لہ ہی ہو گی،جب یہ بات اس کے ذ ہن نشین ہو گئی تو آپ نے اپنادست شفقت اس کے سر پر رکھا اور فر مایا:
اللّٰھم اغفر ذنبہ و طھّر قلبہ و احصن فرجہ
الہا! اس کا گناہ معا ف فر ما دے،اس کادل گنا ہوں سے پا ک صا ف کر دے،اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فر ما۔
راوی کا بیا ن ہے کہ اس کے بعدکبھی بھی زنا کا تصو ر اس کے حا شیہ خیا ل میں نہیں آ یا۔(مسند احمد:ج۵ص۲۵۶،۲۵۷،تفسیر ابن کثیر :۳۸ج۳)
حضرت مولانا قا ضی منصور پو ر ی رحمہ اللہ کا بیا ن
حضرت سید نا یو سف علیہ السلام کو جب عزیزمصر کی بیو ی اپنے محل میں لے گئی،سب درو ازے بند کر دئیے اور حضرت یو سف علیہ السلام کو دعوت گناہ دی تو انہوں نے رب کو یا د کر تے ہو ئے جو بات فر ما ئی،وہ یہ تھی۔اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظِّلِمُوْنَ ظلم کر نے و الے فلا ح نہیں پاتے۔حضرت مو لا نا قا ضی محمد سلیما ن منصور پو ری رحمہ اللہ رقمطر از ہیں :
۱۔ یو سف صدیق علیہ السلام نے اس جگہ ز انی کو ظا لم بتلا یا ہے،وجو ہات پر غو ر کرو،زنا ظلم برخو د بھی ہے زانی اپنی جا ن پر ظلم کرتا ہے کیونکہ زنا سے اخلاق اوررو یہ اور خو ن تباہ و خر اب اور فاسد ہو جا تے ہیں،پید ا ہو نے و الی نسل کا ذخیرہ ضا ئع کیا جاتاہے۔
|