کہ اے ابو یحییٰ! لو گوں پر زبا ن کی حفا ظت،درہم ودینا ر کی حفا ظت سے کہیں بھاری اور ضرو ری ہے،مگر لوگ در ہم ودینا ر کی حفا ظت میں سر گر داں ہیں اور زبا ن کی حفاظت میں بے پر و اہ ہیں۔
قیل و قا ل اور کثرت سو ال سے اجتنا ب
زبا ن کی حفا ظت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کثرت سو ال اور قیل وقال سے اجتناب کیا جائے،چنا نچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اللّٰہ حرّم علیکم عقوق الأمھات و منعًا وھات ووأدالبنات وکرہ لکم قیل وقال،وکثرۃ السؤال واِضاعۃ المال۔
( بخاری،مسلم :ج۲ص۸۸۴ )
تم پر اللہ تعالیٰ نے ما ؤں کی نا فر ما نی اور ان کو ستا نا اور دینے و الی عا م چیز یں (آ گ پا نی،بر تن،دیا سلائی و غیر ہ) نہ دینا اور لو گوں سے ما نگنا اور بیٹیوں کوزندہ در گو ر کرنا حرا م قرار دیا ہے،اور بے فائدہ با تیں کرنے،بے ضر ورت کثرت سے سو ال کرنے اور مال ضا ئع کرنے کو نا پسند اور مکر وہ ٹھہر ایا ہے۔
حضرت معا ویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کوخط لکھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا فرما ن لکھ بھیجئے جو آ پ نے ان سے سنا ہے،تو انہوں نے یہ حد یث لکھ کر بھجو ائی :
اِنّ اللّٰہ کرہ لکم ثلا ثا :قیل و قال واِضاعۃ المال و کثرۃ السؤال۔( بخاری :۱۴۷۷،۷۲۹۲۔)
کہ اللہ تعا لیٰ کو تین چیز یں نا پسند ہیں،بے فا ئدہ با تیں،ما ل کو ضا ئع کر نا اورکثرت سے سو ال کر نا۔
قیل وقا ل سے مر اد لو گوں کی لا یعنی با توں کی حکایت ہے اور وہ با تیں بھی جن کی صحت کا علم نہ ہو،بلکہ امور دین میں علما ء کی مختلف آ را ء کی حکا یت بھی اس میں شامل ہے جس میں کہا جاتا ہے ’’قا ل فلا ن کذا وقا ل فلا ن کذاکہ فلاں نے یوں کہا،فلاں نے یوں کہا ‘‘ یوں اختلا ف اقو ال سے غیر محتا ط اور آزا د طبع لوگ اپنے لیے رخصتوں کا چو ر دروازہ
|