سے وضو کیا،تو ہم نے بقیہ پانی گھونٹ گھونٹ پی لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تم نے کیوں کیا؟ تو ہم نے عرض کی: کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ہم نے ایسا کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
فاِن احببتم أن یحبکم اللّٰہ و رسولہ فأدّوا اِذا ائتمنتم واصدقوا اِذا حدثتم وأحسنوا جوار من جاورکم۔(طبرانی،صحیح الترغیب: ص ۱۲۲ ج ۳)
اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو جب کوئی امانت تمہارے سپرد کی جائے اسے ادا کرو،جب بات کرو تو سچ کہو،اور اپنے پڑوسی سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرو۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر چار چیزیں تم میں پائی جائیں تو پھر دنیا کی باقی چیزوں کے نہ ملنے پر کوئی غم نہیں،امانت کی حفاظت،صدق حدیث،حسن خلق،اور رزق حلال۔(احمد،صحیح الترغیب :ج۳ص۱۲۲)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
یطبع المؤمن علی کل خلۃ غیر الخیانۃ والکذب۔(ابویعلی،البزار)
مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر خیانت اور جھوٹ کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔
امام دار قطنی کا خیال ہے کہ یہ روایت موقوف ہے،مگر اس کی تائید حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے۔
امانت داری کے باعث عزوشرف
حضرت جبریل اور حضرات انبیاء کرام کے حوالے سے بالعموم اور سیدالاولین وا لآخرین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بالخصوص آپ پڑھ آئے ہیں،کہ وہ سب امین تھے،دشمن بھی آپ کے اس وصف سے متصف ہونے کے معترف تھے،اس بنا پر وہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے اور اختلاف کی صورت میں آپ سے فیصلہ لیتے۔چنانچہ حجراسود کے نصب کرنے میں اختلاف ہوا تو وہ پکاراٹھے ھذا محمد الأمین رضینا بہ حکما۔یہ’’محمد‘‘ امین ہیں ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اسی
|