آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فر مایا تو صحا بہ اکر ام رضی اللہ عنہ نے پر یشان ہو کر عر ض کیا ہے کہ ہم کس مال کو حا صل کر یں،آ پ نے فرمایا:
أفضلہ لسان ذاکر،و قلب شاکر،و زوجۃ مؤمنۃ تعینہ علی اِیما نہ۔(ترمذی:ج۴ ص ۱۱۷،ابن ما جہ،صحیح التر غیب: ج۲ ص ۲۰۷،۴۰۲ )
سب سے افضل خزانہ ذکر کر نے و الی زبا ن،شا کر دل،مومنہ بیو ی،جو ایمان میں شوہرکی مد د کرے۔
جس کی تا ئید حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حد یث سے بھی ہو تی ہے کہ:
لیس من متا ع الد نیا شی ء أفضل من المرأۃ الصا لحۃ۔
( مسلم’ نسا ئی: ج۲ص۶۴ ابن ما جہ ص ۱۳۴و غیرہ)
دنیاکے مال و متا ع میں نیک بیو ی سے بہتر کو ئی متاع نہیں۔
ما ل ودو لت تو بو جھ ہے مگر صا لح بیو ی غر بت ہو یا امیری،ہر حا ل میں بہتر ین وفاد ار ساتھی ہے،دنیا کا گھر اس کی بد و لت جنت بنتاہے،اس کے سا تھ سا تھ قلب شا کر اور لسا ن ذا کر مل جا ئے تو سونے پہ سہا گہ ہے۔
زکا ۃ کا اجتما عی نظام
اسلا م میں انفر اد ی زند گی کا کو ئی تصو ر نہیں،اسلا م اجتماعیت کا دا عی ہے،مل جل کے رہنے اور نیکی کے کاموں میں باہم ایک دو سرے سے تعا و ن کا حکم دیتاہے۔
﴿ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰ ی ﴾
ایک دو سر ے سے محبت اور ایک دو سرے سے خیر خو اہی کی تا کید کرتا ہے،دو سا تھی ہوں تو حکم ہے کہ ایک امیر دو سرا مامو ر ہو۔نماز کا وقت ہو تو ایک اما م دو سرا مقتد ی ہو،انفراداً نہیں بلکہ ﴿ وَ ارْکَعُوْا َمعَ الرَّ اکِعِیْنَ ﴾با جما عت نما ز پڑھنے کاحکم ہے،رو زہ ہے تو سبھی مسلما نوں کو رمضا ن میں رو زہ رکھنے کا حکم دیا،۲۹یا ۳۰دن کی گنتی پو ری کر نے کا حکم نہیں فرمایا: رمضا ن کا پو ر ا ماحو ل،سحری،افطاری،ترا ویح وغیرہ روزہ کی آ سا نی کاباعث بنتا ہے،ورنہ اس کی تکمیل مشکل ہو جا تی۔حج ہے تو اس کے لیے بھی ایام حج مخصو ص ہیں،سبھی
|