Maktaba Wahhabi

32 - 534
معاشی معاملات کے حوالے سے عموماً انتہائی اہم شرعی اصول بیان ہوئے ہیں جن کو موجودہ بینکاری سسٹم میں رائج کرنےکا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اور ان شرعی اصولوں کیلئے عہد ِصحابہ کی عملی بےشمار مثالیں بیان ہوتی ہیں ۔لیکن یہاں جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ کہ ان شرعی اصولوں کی رو سے عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو مضاربہ اور مشارکہ یا کوئی بھی اور معاشی معاملہ سرانجام پاتا تھا وہ دراصل دو بھائیوں کا مضاربہ ، مشارکہ اور معاملہ ہوتا تھا جو سراسر اخلاص اور جذبہ تعاون کے تحت ہوتا تھا۔مگر آج کل کے مالیاتی اداروں اور بینکوں میں یہ اخلاص اور تعاون کا جذبہ ناپید ہے ؟ بینک کا خلاصہ جو مجھے سمجھ آیا ہے اس کا نچوڑ کچھ یوں ہے کہ کسی بھی شخص کے اچھے وقت کا ساتھی ،اس پر اگر برا وقت آجائے اور بینک کا کوئی حق اس سے منسلک ہو تووہ اسے نچوڑ کر وہاں مارتا ہے کہ جہاں اس کو پانی تک نہیں ملتا ۔موجودہ معاشرے میں نہ اخوت ہے اورنہ ہی جذبہ تعاون نہ خیر خواہی ! دراصل موجودہ معیشت کی بنیادی خرابی کو اگر دیکھا جائے تو دیگر معاملات کیگتھی سلجھانا آسان ہوجاتا ہے، اور شریعت کے ان سنہرے اصولوں پر کاربند رہنا اور انہیں اپنی زندگی میں نافذ کرنا بھی نہایت آسان ہوجاتا ہے جسے لوگ آج کل بہت مشکل تصور کرتے ہیں ۔ اور وہ بنیادی خرابی ہے مال کی حرص جو علامات قیامت میں سے ایک اہم علامت ہے۔ اس موضوع کی اساس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جوکہ مستدرک حاکم [1]میں صحیح سند سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اقتربت الساعة‘‘۔ ’’قیامت قریب آتی جا رہی ہے اور جو ں جوں لوگ قیامت کے قریب بڑھ رہے ہیں‘‘ ’’ لا يز داد الناس إلا حرصا ولا يزدادون من اللّٰه إلا بعدا ‘‘ ’’ لوگ دنیاوی اعتبار سے ،مالی اعتبار سے حرص کا شکار ہوئے جا رہے ہیں اور اپنے پروردگار سے دور ہوتے جا رہے ہیں‘‘ ۔ مذکورہ بالاروایت سے دو باتیں واضح ہوئیں : اول : یہ کہ مال کی حرص علامات قیامت میں سے ہے۔ دوم : یہ طمع اور یہ حرص اللہ رب العزت سے دوری کا سبب بنتی ہے ۔
Flag Counter