Maktaba Wahhabi

262 - 534
ہیں ۔ ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ دینار کے معنی میں مستعمل ہوتاہے ۔ جب یہ کاغذ کثرت استعمال سے یا کسی اور طرح پھٹ جاتاہے تو وہ دارالضرب میں لے جاتے ہیں اور اس کے عوض نیا لے آتے ہیں ۔ یہ دارالضرب ایک بڑے درجہ کے امیر کی تحویل میں ہے۔ جب کوئی شخص بازار میں درہم یا دینار لے کر خرید وفروخت کرنے جاتاہے تو وہ درہم یا دینار نہیں چلتے، لیکن وہ درہم یا دینار کے عو ض یہ کاغذ لے سکتاہے اور ان کے عوض جو چیز چاہے خرید سکتا ہے‘‘۔ مشہورمؤرخ ابن مقریزی جب بغداد گئے تھے تواُنہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیاتھا۔[1] چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے ۔یورپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ 1661ء کو’’سٹاک ہام بینک‘‘ آف سویڈن نے جاری کیا۔ انگلینڈ نے 1695ء میں کرنسی نوٹ جاری کئے۔ہندوستان میں پہلا نوٹ 5جنوری1825ء کو ’’بنک آف کلکتہ‘‘ نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر 1948ء کو جاری کئےگئے ۔ ابتداء میں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ1971ء سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے۔ کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت اب نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس بارے میں علماء کی مختلف آرا ہیں : پہلی رائے یہ ہے کہ نوٹ اصل میں اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ حاملِ نوٹ نے اس نوٹ کے
Flag Counter