چنا نچہ ’’ عباد الر حمن ‘‘ کے جو او صا ف سو رہ ء الفر قا ن میں بیا ن ہو ئے ہیں ان میں فرمایا گیا ہے کہ:
﴿ وَالَّذِیْنَ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ اِذَا مَرُّوْا بِالَّلغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً﴾ (الفرقان: ۷۲)
اور وہ جو جھو ٹ کے گو اہ نہیں بنتے اور جب کسی لغو پر گزر ہو جا ئے تو وقا ر سے گز ر جاتے ہیں۔
کہ اگر کہیں اتفا ق سے ایسی مجلس میں چلے جا تے ہیں یا بیہو دہ کا م کرنے وا لوں کے پاس سے گز رنے کا اتفا ق ہو تو اس سے دا من بچا کر نظر یں نیچی کئے ہو ئے شر یفا نہ انداز سے گز ر جا تے ہیں،لا یعنی مشاغل میں مشغو ل نہیں ہو تے،بلکہ معصیت میں مبتلا ہو نے و الوں کی تحقیر کر کے کبر و نخوت کا اظہا ر نہیں کرتے۔
اسی طر ح ایک دوسرے مقا م پر ارشا د ہوتا ہے:
﴿ وَاِذَا سَمِعُوْا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَانَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ﴾( القصص:۵۵)
اور جب انہوں نے بیہو دہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنا رہ کش ہو گئے: کہ ہمارے اعمال ہما رے لیے اور تمہا رے اعمال تمہا رے لیے،تم کو سلا م ہے ہم جا ہلوں کا سا طریقہ اختیا کر نا نہیں چا ہتے۔
یعنی وہ ایسی بیہو دہ مجلسوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں،ایسی مجلسوں کو جاہلوں اور نادانوں کی مجلس سمجھ کر خیر با دکہہ دیتے ہیں،یہاں ’’ سلا م علیکم ‘‘ سے مر اد سلام متارکت اور علیحد گی ہے۔سلا م متعارف مراد نہیں۔جیسا کہ سو رہء الفر قا ن میں ہے کہ :
﴿وَاِذَا خَا طَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَا لُوْا سَلٰمًا﴾( الفرقان: ۶۳)
کہ جا ہل ان کے منہ آ تے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلا م۔
علا مہ قر طبی رحمہ اللہ نے کہا ہے: کہ سلام یہاں تسلیم سے نہیں تسلم سے ہے،کہ میرا تم سے کو ئی نا طہ نہیں اردو محاورہ میں بھی ’’سلا م ہے‘‘ چھو ڑنے،با ز آ نے،دست
|