Maktaba Wahhabi

96 - 187
حصنوا اموالکم با لزکٰوۃ و داووا مرضاکم با لصد قۃ واستقبلوا امواج البلا ء بالدعا ء والتضرع(الترغیب :ص۵۲۰ج۱) اپنے امو ل کو زکا ۃ کے ذریعہ محفو ظ کرو،اپنے مر یضوں کا صدقہ سے علا ج کرو،اور مصائب کے حملوں سے دعا اور تضر ع و انکسا ر ی کے ذریعے مقا بلہ کرو۔بلا شبہ صدقہ و زکاۃ سے مال پاک و صا ف ہو کر محفو ظ و ما مو ن ہو جاتا ہے،صدقہ سے بیما ر کو شفا حا صل ہو تی ہے،اور مصائب و الام سے بچنے کا سب سے بڑا ہتھیا ر دعا ہے۔ صدقہ اور صلہ رحمی ہر نیک عمل کی نو عیت زمان ومکا ن کے اعتبا ر سے بڑ ھ جا تی ہے،جیسے رمضان میں نفل و انفا ق کااجر بڑھ جاتا ہے اور عمرہ کا ثو ا ب حج کے برا بر حاصل ہو تا ہے،بیت اللہ میں ایک نما ز کا اجر ایک لاکھ نمازوں کے بر ابر ملتا ہے۔( وقس علی ذلک ) اسی طر ح صدقہ بہرنو ع صد قہ ہے اور با عث بر کت ہے،لیکن یہی صدقہ اگر مستحق رشتہ دا ر وں پر کیا جائے تو یہ ڈبل اجر کا با عث ہے۔ چنا نچہ حضرت سلمان بن عا مر رضی اللہ عنہ سے مر و ی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الصدقۃ علی المسکین صدقۃ و علی ذی الر حم ثنتا ن صد قۃ و صلۃ۔ ( النسا ئی،التر مذی و حسنہ،صحیح التر غیب :ج۱ص۵۳۳و غیرہ) صدقہ مسکین پر صدقہ ہے اور رشتہ دار پر صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ اور صحیح ابن خز یمہ میں ہے کہ قر یبی رشتہ دا روں پر ’’ صدقتان ‘‘ دو صدقے ہیں،گو یا صدقہ اورصلہ رحمی کا ڈبل اجر ملتا ہے۔جب آ یت ’’ لَنْ تَنَا لُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُّحِبُّوْنَ ‘‘ نا ز ل ہو ئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عر ض کیا: کہ میر اسب سے محبو ب مال میر ا باغ ہے،اے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے صدقہ میں دیتا ہوں،آ پ اسے جہاں چا ہتے ہیں خر چ کر دیجئے،آ پ نے فرمایا: ٹھیک ہے،تم اسے اپنے رشتہ داروں پر بطو ر صدقہ تقسیم کرو۔( مسند احمد،ابن کثیر :ص۵۰۶ج۱) مگر آ ج کتنے حضرات ہیں،جو مسا کین پر صدقہ وخیر ات تو کر تے ہیں مگر اپنے
Flag Counter