Maktaba Wahhabi

30 - 534
سیدنامعاذبن جبل نے وہی جواب دیا"ما وجدت أحداً ياخذ مني شيئا"[1] (2)جناب عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ( جنہیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے) نے عراق میں اپنے والی ’’عبد الحمید بن عبد الرحمٰن کو لکھا کہ :"أخرج للناس أعطياتهم، أخرج للناس أعطياتهم" لوگوں کو ان کے مقررہ وظیفے پہنچاؤ۔تو اس نے جواب میں لکھا سب کو ان کے مقررہ وظائف دینے کے بعد بھی بیت المال میں صدقات کا مال باقی ہے تو خلیفہ نے اسے حکم دیا"أنظر کل من أدان فی غير سفه ولا سرف فا قض عنه"جائزہ لو کہ جس شخص نے بھی حماقت پر قرض نہ لیا ہو اور نہ ہی فضو ل خرچی کی بناء پر مقروض ہو گیا ہو اس کا قرض ادا کر دو۔ حاکم عراق عبد الحمید بن عبد الرحمن نے جواب دیا کہ اس طرح کے مقروضوں کا قرض بھی ادا کر دیا گیا ہےتاہم بیت المال میں زائد مال بدستور موجود ہے اس پر خلیفہ نے اسے لکھا "أنظر کلّ بکر ليس له مال فشاء أن تزوّجه فزوّجه و أصدق عنه"اچھی طرح دیکھو جو کوئی غیر شادی شدہ چاہتا ہو کہ تم اس کی شادی کرو تو اس کے نکاح کا اہتمام کرو اور اس کا حق مہر بیت المال سے ادا کرو، اس نے جواب دیا " أني قد زوجت من وجدت "اس طرح کا جو آدمی بھی مجھے ملا اس کا نکاح کر چکا ہوں۔تو خلیفہ نے حکم دیا "انظر من کانت عليه جزية فضعف عن أرضه فاسلفه ما يقوی به علیٰ عمل أرضه فانا لا نريدهم لعام ولا عامين".’’ اگر کوئی جزیہ دینے والا اپنی زمین کی آمدن سے جزیہ دینے کے قابل نہیں رہاتو اس کو اتنا قرض دو جس سے وہ اپنی زمین سنوار سکےہم ان سے ایک سال نہیں بلکہ دو سال تک کچھ تقاضا نہیں کریں گے‘‘۔ اسلامی نظام معیشت کی افادیت سمجھنے کے لئے یہ دو مثالیں ہی کافی ہیں، ہمارا یقین ہے کہ جب ایسے دور میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے جب تجارت کے لئے ناکافی وسائل ہوں ، زراعت میں بے پناہ ترقی نہ ہونے کے باوجود تمام افراد کو مناسب غذا مہیا ہو، وسیع پیمانے پر کاروبار نہ ہونے کے باوجود تمام افراد کو روزگار ملے، تو موجودہ دور میں ان تمام وسائل کے ہوتے ہوئے یقیناً ان مقاصد کا حصول بہت ممکن ہے۔
Flag Counter