نما ز قا ئم کرو اور زکاۃ ادا کرو اور اللہ کو اچھا قر ض دو۔
اسی طر ح سو رہء الانعام بھی مکی سو رتوں میں شما ر ہو تی ہے،جس میں فر مایا گیا ہے
﴿وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ﴾( الانعا م:۱۴۱)
کہ کٹا ئی کے دن فصل کا حق ادا کرو۔
سو رہء لقما ن مکی ہے،جس میں محسنین کی علامت بیان کر تے ہو ئے فرمایاگیا ہے :
﴿ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمَُوْنَ الصَّلَاۃَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ بِا لْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ﴾ ( لقمان۔۴)
جو نمازپڑھتے ہیں،زکوٰ ۃ ادا کر تے ہیں اور آ خرت پر یقین رکھتے ہیں۔
بعثت کے پا نچو یں سا ل ہجرت حبشہ ہو ئی،نجا شی کے در با ر میں حضرت جعفر طیا ر رضی اللہ عنہ نے اسلا م کی تعلیمات کا جونقشہ کھینچا اس میں یہ بھی تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھلا یا ہے کہ ہم نما زپڑھیں،روزے ر کھیں اورزکو ۃ ادا کر یں۔( مسند احمد :ج۱ص۲۰۲،و غیرہ )
حا فظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری( ص۲۶۷ج۳) میں اس کے ضعیف ہو نے کی طر ف اشارہ کیا ہے،اورفرمایا ہے :کہ ابھی تو نماز اور رو زہ بھی فر ض نہیں ہوا تھااس لیے اس سے مراد مطلقاً نماز،رو زہ اور زکو ۃ ہے۔فر ض نما ز،ر مضا ن کا روزہ اور فر ض زکو ۃ نہیں۔گو یا مکی سو رتوں میں زکاۃ سے مر ا د مطلقا ً اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کر نا ہے۔علامہ سیو طی رحمہ اللہ اور ان سے قبل علامہ زر کشی رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے :کہ کبھی آ یت کا نزول حکم سے پہلے بھی ہو تاہے،الاتقان کی النوع الثانی عشرمیں اور علامہ زر کشی نے (البرھا ن :ص۳۲ج۱)میں اس پرمفصل بحث کی ہے اور اس کی مثا لیں پیش کی ہیں اور اس میں انہوں نے زکا ۃ کو بھی شا مل کیا ہے،لکھتے ہیں :
قد ذکر اللّٰہ الزکٰوۃ فی السور المکیات کثیراً تصریحاً و تعریضاً بانّ اللّٰہ سینجز وعدہ لرسولہ ویقیم دینہ و یظھر حتی یفرض الصلا ۃ و الزکاۃ و سائر الشر ائع۔( الا تقا ن :ص۳۶ج۱)
اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کاذکر مکی سو رتوں میں تصر یحاً وتعریضاً باکثرت کیا ہے،اور وہ
|