دیکھوں گا صلہ کیا کر تے ہیں،چنانچہ لشکر سوگیا تو وہ لشکر سے علیحدہ ہو گئے،انہوں نے وضو ء کیا اور نما ز پڑھنے لگے،اسی دو ران ایک شیر آ یا اور آ کر ان کے سا منے بیٹھ گیا۔میں ڈر کے مارے درخت پر چڑھ گیا اور سا را منظردیکھتا رہا،حضرت صلہ شب بھر نما ز پڑھتے ر ہے اور شیر ان کے سامنے بیٹھا رہا،جب سلا م پھیر ا تو شیر سے کہا چلے جاؤ،جا کر اپنا رز ق تلا ش کرو،شیر چلا گیا اس کے بعد انہوں نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے خطرہ محسوس ہو نے لگا کہ کہیں سجدہ میں فوت ہی نہ ہو گئے ہوں،سجدہ سے سر اٹھا یا تو وہ گم شدہ بچے کی طر ح رو رہے تھے۔( کتا ب التھجد،الحلیہ ص ۲۴۰ ج ۲)
اما م سعید بن عبد العز یز تنو خی رحمہ اللہ
دمشق کے ممتا ز محد ثین میں ان کا شما ر ہو تا تھا اما م حا کم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ اہل شا م کے نزدیک ان کاوہی مقا م تھا جواہل حجا ز کے نز دیک اما م مالک رحمہ اللہ کا،اما م سعید رحمہ اللہ شب بھر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے اور فرمایا کرتے: جب میں نما ز کے لیے کھڑا ہو تا ہوں تو جہنم کا نقشہ میری آ نکھوں کے سا منے آ جاتاہے۔ابونصر فرماتے ہیں : کہ نما ز میں اس قد ر رو تے کہ مجھے چٹا ئی پر ان کے آ نسو گر نے کی آ وا ز سنا ئی دیتی تھی۔( التذکرہ)
حضرت زین العا بد ین رحمہ اللہ
حضرت سید نا علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ جن کا لقب کثرت عبا دت کی بنا پر زین العا بدین ہوا،اللہ کی راہ میں بلاحسا ب خر چ کر تے،رات کے اند ھیر ے میں فقر اء و مسا کین کے گھروں میں سا ما ن خو د اٹھا کر پہنچاتے،اور ان کو خبر تک نہ ہو تی کہ سا ما ن لا نے و الا کو ن ہے،یہ راز تو تب کھلا جب ان کا انتقا ل ہوا اور فقر اء کے گھر وں میں ساما ن پہنچنا بند ہو گیا۔۱للہ کے ڈر و خوف کا یہ عا لم تھا کہ حضرت اما م ما لک رحمہ اللہ اور امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرما تے ہیں : حج کے لیے احر ام با ند ھا اور لبیک کہنے لگے تو جسم کا نپنے لگا،لبیک کہنے کی ہمت نہ ر ہی فرما یا :مجھے خوف آ رہا ہے کہ میں لبیک کہوں تو کہیں یہ جو اب نہ آ ئے ’’ لا لبیک ‘‘ تیری حاضری قبو ل نہیں،بڑی مشکل سے لبیک کہا تو ان پر غشی طا ری ہو گئی،اس طر ح لر زتے کا نپتے انہوں نے
|