سا تھ خیرخوا ہی کر نا ہے۔
حضرت معا ذ بن اسد رحمہ اللہ نے کہا :کہ حضرت کیا یہ محض آ پ کی رائے ہے یا اس بارے میں آپ نے کچھ سنا ہے،تو انہوں نے فرمایا: لا بل سمعناہ وتعلمناہ من أصحابنا۔نہیں بلکہ ہم نے یہ با تیں اپنے اصحا ب سے سنیں اور ان سے سیکھی ہیں۔
اس سے معلو م ہواکہ اما نت کا تعلق ما لی حقو ق ہی سے نہیں،دین کے تمام حقو ق کی پا سد اری اما نت ہے،اسی معنی میں فرمایا گیا ہے کہ
﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وِالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ﴾(الاحزاب ۷۲)
کہ ہم نے اما نت کو آ سما نوں پر،زمین پر اور پہا ڑوں پر پیش کیا ( کہ وہ اطاعت و فر ما نبر دا ری اور احکا م و فر ائض کا بار اپنے ذمہ لیں اور ان کے بجا لا نے پر اجر و ثو اب پا ئیں اور خلا ف ورزی پر عذا ب کے مستحق ٹھہریں گے۔)مگر سب نے اس کے اٹھا نے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھالیا۔
اس نے یہ ذمہ دا ری پو ری کرنے کا اقرار کیا،مگرآج کتنے ہیں جو اس سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں،جنہیں اس ذمہ کا احسا س تھا وہ تمام تر فر ما نبر دا ری کے باوصف فرما تے ہیں : کا ش میں درخت ہو تا،کو ئی اونٹ اپنا لقمہ بنا لیتا،کا ش میں پر ندہ ہو تا،پر ندہ کی طرح کھاتا اڑتا اور پھر مر جاتا اور مجھ سے حسا ب نہ لیا جاتا۔
مجالس بھی امانت ہیں
کسی مجلس میں کوئی بات کی جائے اور اہل مجلس میں اس کے افشا نہ کرنے کا عہد ہو تو اسے افشا کرنا خیانت ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
المجالس بالأمانۃ اِلاَّ ثلا ثۃ مجالس سفک دم حرام أو فرج حرام أو اقتطاع مال بغیر حق۔
(ابوداؤد: ص ۴۱۸ ج ۴،ضعیف الترغیب: ج۲ ص ۲۷)
|