Maktaba Wahhabi

69 - 187
الظنون و ضیعت أو قاتک بارتکاب ما لایعنیک فمتی یربح من خسر رأس مالہ۔( ذم الھو ی :ص ۴۹۹) تیر ا را س الما ل تیر ا دل اور وقت ہے تو نے اپنے دل کو ظنو ن کے وسا وس سے مشغول کر لیا،اور اپنے اوقات کو لا یعنی مشا غل میں بر با د کر لیا ہے،جس کا راس المال ہی اجڑ جائے اسے فا ئدہ کیسے پہنچے گا۔ مز ید غو ر کیجئے کہ زند گی کا یہ وقت مختلف اور ایک سے ایک قیمتی اور بر کت و سعادت کے لحاظ سے متفا وت،اس کا ایک لمحہ دو سر ے لمحہ سے کہیں بڑھ کر ہے،اور ان اوقات میں عمل کی حیثیت بھی کئی در جہ بڑھ جا تی ہے رمضان المبا رک،رمضا ن کی آ خری دس ر اتیں،با لخصو ص لیلۃ القد ر،عشرہ ذو الحجہ رات کاآ خری حصہ و غیرہ،ان قیمتی ایام و لیا لی کو لا یعنی مشا غل میں گز ارنا سر اسر گھا ٹے کا سو دا ہے۔اللہ سبحا نہ وتعا لی نے فرمایا : ﴿ وَ الْعَصْرِo اِنَّ الْاِ نْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo﴾ زمانے کی قسم،انسا ن خسا رے میں ہے۔ اس میں بھی اس بات کی طر ف اشا رہ ہے کہ ہمارا اصل سر مایہ وقت ہے جو بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔اما م الر ازی رحمہ اللہ نے ایک بزرگ کا قو ل نقل کیا ہے :کہ میں نے سو رہء العصر کا مطلب ایک برف فر وش سے سمجھا جو با زار میں آ و از لگا رہا تھا،کہ اس شخص پر رحم کرو جس کا سر ما یہ گھلا جا رہا ہو،اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا﴿ وَ الْعَصْرِ اِنَّ الْاِ نْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ﴾کا مطلب یہ ہے کہ عمر کی جو مدت انسا ن کو دی گئی ہے،وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گز ر رہی ہے،اسے اگر ضا ئع کیاجا ئے یا غلط کاموں میں صرف کر ڈا لا جائے تو یہی انسا ن کا خسا رہ ہے،اور اس خسا رہ سے وہی محفو ظ ہو تا ہے جو چا ر اوصا ف سے متصف ہو گا،ایما ن،عمل صا لح،تو اصی بالحق،تو اصی با لصبر۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا: نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس،الصحۃ و الفراغ۔( بخاری: ج۲ص۹۴۹ )
Flag Counter