لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ﴾( البقرۃ:۲۶۷)
اے ایمان و الو! جو اچھی عمدہ چیزیں تم کما ؤ ان میں سے خر چ کرو اور جو ہم نے تمہا رے لئے زمین سے پید ا کیا۔
صدقہ کی تر غیب
اسی طرح آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’علی کل مسلم صد قۃ ‘‘ ہر مسلمان پر صد قہ ہے،اور ایک روایت میں ہے کہ ہر رو ز مسلما ن پر صدقہ ہے،صحا بہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عر ض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جس کے پا س کچھ نہ ہو وہ کیا کرے ؟ آ پ نے فرما یا: وہ محنت و مز دو ری کر کے خود فا ئدہ اٹھا ئے اور صد قہ بھی کرے انہوں نے پھر عر ض کیا: کہ جس میں اس کی بھی طا قت نہ ہو وہ کیا کرے ؟ فرمایا: وہ حاجت مند وں کی مدد کرے انہوں نے پھر عر ض کی: کہ اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو کیا کرے ؟ فرمایا: وہ نیکی کا کام کرے اور برائی سے بچے،یہی اس کا صدقہ ہے۔( بخاری مع الفتح :ص ۳۰۷ج۳)اور ایک روایت میں ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دے اور بر ے کاموں سے منع کرے یہ اس کا صدقہ ہے۔
حضرت ابو ذر غفا ری رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے در یا فت کیا کہ اگر صدقہ کرنے کی مجھ میں ہمت ہی نہ ہو تو کیا کروں ؟ تو آ پ نے فرمایا: اہل و عیا ل کی ضرورت سے جو بچ جائے و ہی صدقہ کرو،میں نے عر ض کیا: اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کرو اگرچہ کھجو ر کا ٹکڑ ا ہی کیوں نہ ہو،میں نے پھر عرض کیا: اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اچھی اور بھلی بات کرو،میں نے پھر عر ض کیا:کہ یہ بھی نہ ہو سکے تو کیاکر وں ؟ فرمایا: لو گوں کوشر وفسا د سے بچا ؤ۔(البز ار،ابن حبان،التر غیب :ص۱۸ج۲)
یہ اور اس مو ضو ع کی دو سری احاد یث سے معلو م ہو تا ہے کہ آ پ نے بہر آ ئینہ صدقہ وخیرات کا حکم دیا۔صحا بہ کر ام رضی اللہ عنہ با زار جا تے،محنت و مز دو ری کر تے،جو ملتا اس میں سے ضرو رت سے ز ائد صدقہ کردیتے،پھر جب کچھ ما ل و زر کی فر او انی ہو نے لگی تو نصاب زکو ۃ
|