Maktaba Wahhabi

164 - 534
اسے قید کردیا جائے گا‘‘[1]۔ امام ابوبکر الجصاص فرماتے ہیں : ’’ والمراد بالعقوبة هنا الحبس لأن أحدا لا يوجب غيره‘‘ اس حدیث میں سزا سے مراد قید ہے کیونکہ (علماء میں سے ) کسی نے بھی اس کے علاوہ کوئی اور سزا واجب نہیں کی۔[2]بلکہ علماء نے اس کے برعکس بطور جرمانہ کسی بھی قسم کے مالی اضافہ کو حرام کہا ہے اور بیان کیا ہے کہ دور جاہلیت کا اصل سود یہی تھا، امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ دور جاہلیت کا اصل سود یہی تھا کہ ایک شخص کسی کو کوئی چیز ادھار پر بیچتا ، جب ادائیگی کا وقت آتا اور خریدار کے پاس رقم نہ ہوتی تو وہ مطلوبہ رقم میں اضافہ کر کے اس کو مزید مہلت دے دیتا‘‘[3]۔ ابن عبدالبررحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ :’’ دور جاہلیت کا سود یہ تھا کہ اگر ایک شخص نے کسی کو قرض دیا ہوتا اور ادائیگی کا وقت آتا تو قرض خواہ ، قرضدار سے پوچھتا کہ: ’’ادائیگی کرو گے یا (مزید مہلت لے کر ) سود ادا کرو گے؟ ، اگر قرضدار اس وقت ادائیگی کر دیتا تو وہ لے لیتا ورنہ اس پر سود لگا دیتا‘‘[4]۔ شریعت نے قرض کے بدلہ ہر قسم کے منافع کو ناجائز کہا ہے ، اس بارے میں ایک حدیث بھی ذکر کی جاتی ہے کہ : ’’کل قرض جر منفعة فهو ربا‘‘ ’’ہر وہ قرض جس سے قرض خواہ کو کوئی فائدہ ملےوہ سود ہے‘‘5۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس معنی میں صحابہ کرام  سے صحیح آثار منقول ہیں، ابن القیم فرماتے ہیں : ’’ ہر وہ قرض جس میں اضافی رقم کا مطالبہ ہووہ سود اور حرام ہے بغیر (علماء کے ) کسی اختلاف کے، اور اس حوالہ سے ابی بن کعب ، ابن عباس اور ابن مسعود  سے صحیح آثار منقول ہیں ‘‘۔ اسی طرح اس کی حرمت پر اجماع کو ابن المنذر  نے بھی ذکر کیا ہے فرماتے ہیں : أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية فأسلف على ذلك: أن أخذ الزيادة على ذلك ربا ’’اس بات پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ جب قرض دینے والا ، قرض لینےوالے پر یہ
Flag Counter