Maktaba Wahhabi

99 - 187
نظر سے جا ئزہ لیا جائے تو یہ سلسلہ ایک سبب پر جا کر رک جاتا ہے،اور وہ ہے ’’محبت ‘‘،کہ ہر کا م کسی ’’محبو ب ‘‘ کی محبت میں ہو رہا ہے۔وہ محبو ب زند گی ہو،صحت و جو انی ہو،مال ودولت ہو،محل و مکا ن ہو،ماں باپ ہو،بیوی بچے ہوں،وطن ہو،یا قو م و بر ادری ہو،غر ضیکہ سب کا م کسی ’’ محبو ب‘‘ کی محبت کا نتیجہ ہیں۔مگر ایک مومن صا دق کی سب سے بڑھ کر محبت اللہ تعا لیٰ سے ہے،خو د اللہ تعالیٰ اپنے مو من بند وں کے با رے میں فرماتے ہیں کہ: ﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ﴾(البقرۃ: ۱۶۵) جو ایما ند ار ہیں وہ سب سے زیا دہ محبت اللہ سے کر تے ہیں۔ بلکہ اللہ سے محبت چھو ڑ کر دو سروں کی محبت میں سر شا ر رہنے و الوں کو خبر دا ر فرما یا: کہ ’’اگر تمہیں اپنے باپ،اپنے بیٹے،اپنے بھا ئی،اپنی بیو ی اپنے کنبے اور اپنے امو ال جو تم نے کما ئے ہیں اور تجا رت جس کے مند ا پڑنے سے تم ڈرتے ہو،اور تمہارے محلات جو تمہیں پسند ہیں،اللہ اور اسکے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی راہ میں جہا د کر نے سے زیا دہ محبو ب ہیں،تو انتظا ر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آ ئے اور اللہ نافرمانوں کوہدا یت نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقا ضا ہے کہ اپنی محبو ب چیز اللہ کی راہ میں خر چ کر دی جائے وہ جا ن ہو یا ما ل یا اہل و عیا ل ہو یا ما ل و منا ل،زکا ۃ و صدقہ کاحکم بھی در اصل اس پس منظر کا نتیجہ ہے۔ نیکی کی اصل حقیقت بھی یہی ہے چنا نچہ فرمایا۔ ﴿ لَنْ تَنَا لُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾(آل عمر ان: ۹۲) تم اس وقت تک نیکی نہیں پا سکتے جب تک وہ کچھ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہو۔ یہ آ یت نا ز ل ہو ئی تو حضرت ابوطلحہ انصا ری رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میر ی سا ری جائیداد سے بیر حاء کا با غ مجھے محبو ب ہے۔میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں،اور اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں،آ پ اسے اللہ تعالیٰ کی را ہنما ئی کے
Flag Counter