﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِأَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ ﴾(المؤمنون :۸)
اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔
فلاح اور فوز سے سر فراز ہونے والے ایمانداروں کا پانچواں وصف یہ بیان ہوا ہے کہ امانت کو پورا کرتے ہیں،اور اس کا حق ادا کرتے ہیں۔’’امانت‘‘ کا لفظ ہی ’’امن‘‘ سے ہے،اور امن کے معنی نفس کے مطمئن ہونے کے ہیں،اور امین بھی امانت کی ادائیگی میں ہی اطمینان پاتا ہے،اور امین بھی وہی ہوتا ہے جس کے با رے میں دل مطمئن ہو کہ یہ خیا نت نہیں کرے گا۔’’ امن،امانت اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں۔اور’’ امان‘‘ کے معنی کبھی حالت امن کے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے۔(مفردات الراغب ) أمٰنٰتِھِمْ جمع کا صیغہ لایا گیا کہ امانت کی قسمیں بیشمار ہیں خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے۔
دین کی عمارت امانت پر قائم ہے
بلکہ پورے دین کی عمارت اسی امانت پر قائم ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ دین حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اپنے انبیا ء کرام علیہم السلام کو عطا فرمایا: تو جبریلں کا لقب ہی ’’الروح الامین ‘‘ قرار پایا۔اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی ’’امین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا۔سورہء الشعراء میں انبیاء کرام کی دعوت کے حوالے سے ہر نبی کا یہ قول بیان ہوا ہے: کہ ﴿اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌ﴾ میں تمہارے پاس رسول امین ہوں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو آپ کی جان کے پیاسے بھی صادق وامین تسلیم کرتے تھے،بلکہ تمام عداوتوں کے باوجود امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س رکھتے تھے،ہجرت کی رات اپنے بستر مبارک پر جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ گئے،تو انہیں فرمایا: کہ یہ امانتیں ان کے مالکوں کو لوٹا کر مدینہ چلے آنا۔ہرقل نے بھرے دربارمیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے جب آپ کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کیا کہتے ہیں ؟ تو سخت ترین عداوت کے باوجود برملا کہا کہ:
أَنّہ یأمربالصلاۃ والصدقۃ والعفاف والوفاء بالعھد وأداء الأمانۃ۔
|