Maktaba Wahhabi

62 - 187
بارے میں کس قد ر خائف تھے اس کا اند ازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان سے لگا لیجئے کہ ایک بار وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ ئے دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی زبا ن کو کھینچ رہے ہیں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ٹھہریں اللہ تعالیٰ آ پ کی مغفرت فرمائے،( یہ کیا ہو رہا ہے ) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اِنّ ھذا اوردنی المو ارد ‘‘ اس نے مجھے ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔( موطا : ص ۳۸۷ و غیرہ) اگر غو ر کیا جا ئے تو کلا م کی مجمو عی طو ر پر چا ر قسمیں ہیں۔ ۱۔ جو دنیا وآ خرت میں نفع بخش ہو۔ ۲۔ جو نقصا ن اور ضر ر پر مبنی ہو۔ ۳۔ جس میں نقصان یا نفع دونوں کا احتما ل ہو۔ ۴۔ جس میں نہ کو ئی فا ئدہ نہ ہی نقصا ن ہو۔ جو کلا م محض ضرر پر مبنی ہواس سے اجتنا ب و اجب ہے،اور جس میں نفع و نقصان دو نوں کا احتما ل ہے اس سے بھی پر ہیز کر نا چا ہیے۔چو تھی قسم فضو ل کلا م کی ہے،جس میں وقت کا ضیاع ہے،سراسر گھا ٹے کا باعث ہے،اور مو من کی شان کے منا فی ہے،صرف پہلی قسم نفع کا سبب ہے،مگر یہ بھی خطرہ سے خالی نہیں،اس میں ریاء،تصنع اور تکبر کا احتما ل ہے،اس لیے خاموشی اور سکوت میں ہی عا فیت ہے،عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ ابن آ دم کی اکثر خطا کا سبب اس کی زبا ن ہے۔( بیہقی،طبر انی،الترغیب ۵۴۳:ج۳) اما م عطا ء رحمہ اللہ فر ماتے ہیں :کہ ہما رے اسلا ف ہر اس کلا م کو فضو ل سمجھتے تھے جو کتاب اللہ اور سنت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علا وہ ہو،امر با لمعر وف اور نھی عن المنکر سے جس کا تعلق نہ ہو یا کو ئی جا ئز دنیو ی فا ئدہ اس میں نہ ہو۔اس کی تا ئید حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل کلام ابن آ دم علیہ لا لہ اِلّا أمر بمعروف أو نھی عن منکر أو ذکر اللّٰہ۔(ترمذی،ابن ما جہ،ضعیف التر غیب :ج۲ص۲۴۲ ) ابن آ دم کا ہر کلا م اس پر بو جھ ہے،اس کے لیے (مفید) نہیں الا یہ کہ امر
Flag Counter