علامہ آلوسی رضی اللہ عنہ نے جس حقیقت کا اظہار کیا ہے اولیاء کرام کی قبروں پر اس کا مظاہرہ ہر انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے،اس قسم کی نذرو منت قطعاً حرام ہے،اور اس کا پورا کرنا بھی حرام ہے،اور جو نذر اللہ کی اطاعت و قربت کے لئے ہواسے بہرنوع پوراکرنا چاہیے،متقی و پرہیز گار کی ایک علامت یہ ہے کہ ﴿یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ﴾ (الدھر:۷) وہ نذر کو پورا کرتے ہیں۔
ہر جائز کام کا عزم اور عہد
اسی طر ح اللہ تعالیٰ کا نام لے کر یا اللہ کی قسم کھا کر جس کام کا اقرار کرتا ہے وہ بھی عہدو معاہدہ میں شامل ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَأَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوْا الْأَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَد ْجَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا﴾(النحل : ۹۱)
اورتم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو،اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو،جبکہ تم اپنے (قول و اقرار) پر اللہ کو ضامن بنا چکے ہو۔
یعنی وہ عہد و پیمان جو قسموں کے ذریعہ پختہ کرچکے ہواسے مت توڑو (ابن کثیر)،اور اس میں ہر وہ عہد شامل ہے جس کے کرنے کا التزام انسان نے اپنے ذمہ لے لیا ہو،بشرطیکہ وہ شریعت کے موافق ہو،خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد،اس میں وہ قول و اقرار بھی شامل ہے جو اسلام لاتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے۔
اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَبِعَھْدِ اللّٰہِ أَوْفُوا ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ﴾(الانعام: ۱۵۲)
اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہ اس نے تم کو نصیحت کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا ہے: کہ یہاں عہد سے تمام اوامرو نواہی کی پابندی اور کتاب و سنت کی اطاعت مراد ہے گویا ایک مسلمان جب کلمہ شہادت کا اعتراف و اقرار کرتا ہے تو وہ اپنے ذمہ اس پابندی کا عہد کرتا ہے کہ میں ایک اللہ کی عبادت کروں گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں گا۔اب ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دامن
|