مُحْصِنَۃٌ اور مُحْصَنَۃٌ ( بصیغہ فا عل اور مفعو ل ) دو نوں طر ح کہا گیا ہے کہ بصیغہ فا عل اس بنا پر کہ وہ خود اپنی حفا ظت کر تی ہے،اور بصیغہ مفعو ل دو سرے کی جانب سے حفا ظت کی وجہ سے ہے کہ خاو ند اس کی حفا ظت کر تے ہیں۔اورقر آ ن مجید میں جہاں مُحْصَنَات کا لفظ آ یا ہے،وہاں صاد کے فتحہ اور کسرہ کے سا تھ پڑھناصحیح ہے،لیکن جہاں یہ لفظ حرمت کے بعد آ یا ہے،وہاں فتح صاد کے سا تھ پڑھا جائے گا کیونکہ شو ہر دار عو رتوں کے سا تھ ہی نکا ح حرا م ہے،نہ کہ عفائف کے سا تھ،( مفردات القر آ ن )
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اِحْصَا ن کا اصل مادہ حصن ہے جس کے معنی ہیں قلعہ،یہ محفو ظ جگہ کو کہتے ہیں،اور اسی سے احصا ن اور محصن اور محصنات پا کدامنی کے معنی میں ہے،بالخصوص شا دی شدہ عورت جو خا و ند اور اس کے خا ند ا ن کی حفاظت میں ہے،جس طر ح قلعہ کو تو ڑنے والا با غی ہے،اسی طر ح خا وند و خا ند ان کے حفاظتی قلعہ سے بغاوت کر کے بر ائی کا ارتکا ب کر نے وا لی بھی سخت ترین سزا،یعنی رجم کی مستوجب ہے۔
بہر حا ل آیت کے عمومی حکم سے عو رت با لاجماع خا رج ہے،یا عورت اس کی مخاطب نہیں،اس سے مر اد صرف مر دہے عو رت نہیں،کہ مر د اپنی بیو ی اورلو نڈی سے شرمگاہ کی حفاظت نہ کر نے میں با عث ملا مت نہیں،
بیو ی اور با ند ی کے علا وہ با قی ذ را ئع
بیو ی اور با ندی کے علا وہ ہر ایک سے شرمگاہ کی حفا ظت کاحکم ہے،بلکہ خبر دا ر فرمایا ہے کہ:
﴿فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ﴾ (المؤمنون:۷)
البتہ ان کے سو اجو کو ئی اور ذریعہ چا ہیں،وہی حد سے تجا و ز کر نے و الے ہیں۔
یعنی ان دو جا ئزصو رتوں کے علا وہ خو اہش نفس کی تکمیل کے لیے جو صورت بھی اختیا ر کر ے گا وہ ناجائزاور حرا م ہے،وہ زناہو،عمل قو م لو ط ہو یا جا نو ر سے بد فعلی ہو،ان تینوں کی حرمت پر اتفاق ہے،زنااور زانی کی مذمت کے با رے قر آ ن و سنت کی
|