Maktaba Wahhabi

167 - 187
وفائے عہد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عہد کی پاسداری اور وعدہ کو پورا کرنے کے حوالے سے امانت کی اہمیت کے ضمن میں حضرت انس، رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ،حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی احادیث گزر چکی ہیں جن کے اعادہ کی ضرورت نہیں اسی طرح عہد و پیماں کے حوالے سے ہرقل کے دربار میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی گواہی بھی آپ پڑھ آئے ہیں،کہ آپ نماز پڑھنے،صدقہ و خیرات کرنے،پاکدامنی اختیار کرنے،وعدہ وفا کرنے اور امانت کی پاسداری کا حکم فرماتے ہیں،ہر قل خود اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ: ’’سالتک ھل یغدر؟ فذکرت أن لا،کذلک الرسل لا تغدر‘‘ میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی عہد کو توڑا ہے،تو تم نے کہا: بالکل نہیں،جو رسول ہوتا ہے غدر نہیں کرتا۔(بخاری ج۱ص۴) عبداللہ بن ابی الحمساء کا بیان ہے کہ اعلان نبوت سے پہلے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لین دین کا معاملہ کیا تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ کل فلاں جگہ آپ سے ملوں گا،مگر میں بھول گیا،میں تیسرے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں میرے انتظار میں تھے مجھے دیکھ کر فرمایا: یافتی لقد شققت علی وأنا ھھنا منذ ثلاث انتظرک۔ (ابوداود: ص ۴۵۶ ج ۴ وفیہ ضعف مکارم الأخلاق للخرائطی ) اے نوجوان! تو نے مجھے بڑی مشکل میں مبتلا کردیا میں یہاں تین دن سے تیرے انتظار میں ہوں۔ امن و اطمینان اور صلح آ شتی کے زمانے میں ہر ایک عہد و میثاق کی پابندی کرتا ہے،اور جو وعدہ کرتا ہے اسے پورا کرتا ہے،مگر اختلاف اور لڑائی کی صورت میں انسان عہد شکن ہوجاتا ہے،اوروفائے عہد کا کوئی پاس نہیں کرتا،بلکہ جنگی اغراض کی خاطر بسا اوقات انسان چار پاؤں سے کہیں بڑھ کرو حشی اور درندوں سے زیادہ خونخوار بن جاتا ہے،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا کمال ہے کہ اس میں ظاہر و باطن ایک ہے،جنگ و صلح میں بھی حالتیں یکساں ہیں،عہد و میثاق پر جس طرح زمانہ امن میں قائم تھے جنگ و جدال
Flag Counter