کے سیلاب میں بھی اس پر قائم رہے،چنانچہ ۶ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کی نیت سے چودہ سو( ۱۴۰۰) رفقاء کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے،حدیبیہ کے مقام پر جو کہ جدہ سے مکہ کی طرف عین حد حرم پر ۲۲۔۲۳ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے پہنچتے ہیں،تو کفار مکہ آگے بڑھ کر آپ کا راستہ روکتے ہیں جس کے نتیجہ میں جو معاہدہ ہوا وہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے،صلح کی شرائط یہ ہیں :
۱۔ آئندہ دس سال تک لڑائی موقوف۔
۲۔ اب کی بارواپس لوٹ جائیں،آئندہ آئیں تو لڑائی کے ہتھیار ساتھ نہ ہوں،تلوار ہوتو وہ میان میں بند ہو۔
۳۔ قریشی مسلمان ہوجائے تو عندالطلب واپس کرنا ہوگا،اور اگر تمہاری طرف سے کوئی ہمارے ہاں پلٹ آئے تو ہم واپس نہیں کریں گے۔
۴۔ دوسرے قبائل جس جس سے چاہیں معاہدہ کریں،ہمارے ساتھ یا آپ کے ساتھ۔
بظاہر یہ صلح بڑی عاجزانہ و مجبورانہ معلوم ہوتی ہے جس کا احساس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی تھا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جذبات کتب تاریخ میں معروف ہیں،آپ نے بھی فرمایا تھا: کہ کفار جو شرطیں پیش کریں گے ہم تسلیم کریں گے،بشرطیکہ شعائر اللہ کی ان میں توہین نہ ہو،تحریر کے وقت’’ بسم اللّٰہ‘‘ کی جگہ’’ باسمک اللّٰھم‘‘ اور ’’مِنْ مُحَمَّدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ کی بجائے’’ من محمد بن عبداللّٰہ‘‘ کفار کے کہنے پر لکھا گیا،یہ بھی بظاہر اس کا مؤ ید ہے کہ آپ مجبور تھے،اور کفار نے آپ کو بے دست و پا کر دیا تھا،لیکن ایسا ہرگز نہیں،نہ آپ قوت میں کمزور تھے،اور نہ ہی آپ کو اپنے ساتھیوں پر کوئی بداعتمادی تھی ورنہ تخلف کی بیعت نہ لیتے،آپ کا فرمان تھا: کہ ہم قتال کے لئے نہیں آئے،بلکہ عمرہ کے لئے آئے ہیں،قریش کو مسلسل لڑائی نے کمزور کردیا ہے،اگر وہ چاہیں تو ایک مدت تک صلح کرسکتے ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں :۔اِنّا لم نجیء لِقتال أحد ولکنّا جئنا معتمرین واِنَّ قریشا قد نھکتھم الحرب واضرت بہم فان شاؤا ماددتھم مدۃ۔(بخاری کتاب الشروط: ص ۳۲۹ ج ۵الفتح)اور سیرت ابن ہشام(ص۲۲۶ ج ۲ مع الروض) کے الفاظ ہیں : ویح قریش لقد اکلتھم الحرب۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو
|