Maktaba Wahhabi

169 - 187
نہیں بلکہ کفار کو کمزور سمجھتے ہیں،آپ نے اپنے سے کمزور کے ساتھ صلح کرکے صلح کے سلسلے میں ایسی مثال پیش کی جس کی نظیر مشکل ہے،پھر جن شروط پر صلح کی اس پر پورے اترے،صلح کے لئے کفار کی طرف سے سھیل بن عمرو آیا تھا،اور اس کا بیٹا ابو جندل رضی اللہ عنہ مسلمان ہوچکا تھا،عین اس وقت جب صلح نامہ لکھا جا رہا تھا،تو ابو جندل رضی اللہ عنہ گھر سے بھاگ کر حدیبیہ پہنچے،حال یہ تھا کہ بیڑیاں اور ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں،باپ سہیل نے دیکھا تو تھپڑ رسید کیا اور گریبان سے پکڑ کرگھسیٹنے لگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا شرط کے مطابق اسے واپس کرو آپ نے فرمایا: میری وجہ سے اجازت دے دو،سہیل کے ساتھی مکرز بن حفص نے بھی کہا اجازت دے دو،مگر سہیل نہ مانا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو جندل رضی اللہ عنہ واپس لوٹ جاؤ،عرض کرتا ہے حضور میں بڑی سخت تکالیف میں مبتلا رہا دوڑ کر یہاں آیا ہوں کیا آپ پھر مجھے دشمن کے حوالے کردیں گے،آپ نے فرمایا: یا أبا جندل اصبر و احتسب فاِنَّ اللّٰہ جاعل لک ولمن معک من المستضعفین فرجا ومخرجا اِنّا قد عقدنا بیننا و بین القوم واِنّا لا نغدر۔(ابن ھشام) ابوجندل رضی اللہ عنہ صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھو،بلاریب اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور تمہارے کمزور ساتھیوں کے لئے آسانی اور نکلنے کی کوئی سبیل بنادے گا،ہم نے قوم کفار کے ساتھ عہد باندھا ہے ہم اس کو نہیں توڑیں گے۔ صلح حدیبیہ سے فارغ ہوکر آپ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے تو مکہ مکرمہ سے ابوبصیر رضی اللہ عنہ بھاگ کر مدینہ پہنچ گئے،قریش نے دو آدمی تلاش کے لئے بھیجے،جب وہ مدینہ طیبہ پہنچے تو ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو وہاں پاکر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے: کہ صلح کے مطابق آپ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو واپس ہمارے ساتھ روانہ کریں۔چنانچہ صلح میں شرط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کردیا،وہ انہیں لیکر ذوالحلیفہ پہنچے،وہاں بیٹھ کر کھجوریں کھانے لگے،حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو دیکھ کر کہا: یہ تمہاری تلوار بڑی اچھی ہے،اس نے بھی اپنی تلوار کی تعریف سنی تو اسے لہراتے ہوئے کہا: میں نے بارہا اس کا تجربہ کیا جس پر یہ پڑی بس ایک ہی وار میں اس کاکام تمام کردیا،ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یار!دکھا تو سہی اس نے تلوار دے
Flag Counter