Maktaba Wahhabi

130 - 534
تیسرا اصول شرعی نقطۂ نظر سے مضاربہ ایگریمنٹ میں سرمایہ کارکا حق فائق ہوتا ہے یعنی وہ مضارب پر کسی مخصوص شخص یا کمپنی کے ساتھ لین دین کرنے یا کسی خاص جگہ پر کاروبار کرنے کی پابندی عائد کر سکتا ہے اور ان اشیاء کا تعین بھی کر سکتا ہے جن کے علاوہ تجارت نہیں کی جاسکتی اور اگر مضارب اس کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو وہ سرمایہ کار کے سرمائے کا ذمہ دار ہوگا جیساکہ حضرت حکیم بن حزام  سے مروی ہے کہ جب وہ کسی کو مضاربہ پر مال دیتے تو یہ شرط عائد کرتے: " أن لاتجعل مالي فی کبد رطبة ولا تحمله فی بحر ولاتنزله به فی بطن مسيل ،فان فعلت شيئا من ذلک فقد ضمنت مالی ". [1] ’’ میرے مال سے جانور نہیں خریدوگے اور نہ اس سے سمندر اور کسی وادی میں تجارت کرو گے اور اگر تم نے ایسا کیا تو میرے مال کے نقصان کی ذمہ داری تم پر ہوگی ۔‘‘ مروجہ اسلامی بینکوں کے کھاتے داران اس حوالے سے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیںکیونکہ ان کا کام صرف رقوم جمع کرانا ہے ۔ ان رقوم سے کونسا کاروبار کرنا ہے یا بینک اس کو کہاں استعمال کرے گا یہ اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے،کھاتے دار اس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے ۔چنانچہ ہر اسلامی بینک کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ صراحت ہوتی ہے : ’’بینک بحیثیت مضارب اپنی صوابدید پر صارفین سے وصول شدہ رقم کی سرمایہ کاری و عدم سرمایہ کاری کسی بھی کاروبار ( کاروبار ، ٹرانزیکشن ،پروڈکٹ )میں کرسکتا ہے جو بینک کے شریعہ ایڈوائزر سے منظور شدہ ہو ۔‘‘ یہ درست ہے کہ سرمایہ کار مضارب کو یہ اختیار دے سکتا ہے کہ وہ جس کاروبار اور تجارت میں پیسہ لگانا
Flag Counter