اس کا نام اسلم اور بعض نے یسار بتلایا ہے اپنی بکریوں سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا آپ کیا کہتے ہیں اور کس کی دعوت دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: میں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کہ تم اس بات کا اقرار کرو کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں،اس غلام نے کہا: کہ اگر میں آپ کی دعوت قبول کرلوں تو مجھے کیا ملے گا،فرمایا: اگر تم اسی حالت پر فوت ہوگئے تو تمہیں جنت ملے گی،چنانچہ وہ ایمان لے آیا اور عر ض کیا:یا نبی اللّٰہ اِنّ ھذہ الغنم عندی أمانۃ اے اللہ کے نبی !یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں ان کا کیا کروں آپ نے فرمایا: اسے کنکریاں مار کر مالک کی طرف بھگا دو،اللہ تعالیٰ تمہاری امانت پہنچا دے گا،چنانچہ اس نے یوں ہی کیااور وہ بکریاں اپنے یہودی مالک کے پاس پہنچ گئیں۔(زادالمعاد: ص ۱۳۵ ج ۲) غور کیجئے بھوک پیاس کی شدت کے باوجود اور عین محاذ جنگ پر بھی بکریوں پر قبضہ نہیں کیا،بلکہ امانت کو ادا کرنے کا حکم فرمایا،یہی غلام لڑائی کے دوران میں شہید ہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لقد أکرم اللّٰہ ھذا العبد وساقہ الی خیر ولقد رأیت عند رأسہ اثنین من الحورا لعین ولم یصل للّٰہ سجدۃ قط
اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا کرم فرمایا،اسے خیرکی طرف لے آیا،میں اس کے سرکے پاس دو حوروں کو دیکھ رہا ہوں جبکہ اس نے اللہ کو ایک سجدہ بھی نہیں کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا :اے اللہ کے رسول! میرا رنگ سیاہ،منہ بے ڈھبہ سا اور بو میرے جسم سے اٹھ رہی ہے،کوئی مال میرے پاس نہیں،اگر اسی حالت میں ان سے قتال کروں اور مارا جاؤں تو مجھے جنت ملے گی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں،چنانچہ وہ آگے بڑھا اور شہید ہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تیرا چہرا خوبصورت کرے،تجھے خوشبودار بنائے اور تیرا مال زیادہ کرے میں دو حوروں کو دیکھ رہا ہوں وہ اس کے جبہ میں داخل ہورہی ہیں۔(ایضا)
وفائے عہد اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں سے ایک مدت تک نہ لڑنے کا عہد کیا،مگر اپنی تیاریوں میں مصروف رہے،جب مدت معاہدہ ختم ہونے کے قریب ہوئی تو فوج لیکر
|