Maktaba Wahhabi

173 - 187
رومیوں کی سرحد پر روانہ ہوگئے،تاکہ جوں ہی مدت ختم ہو حملہ کردیا جائے،سفر کے دوران میں ایک صاحب گھوڑا دوڑاتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ اکبر یہ بد عہدی کیوں ہے؟ وفائے عہد کرنا چاہیے،دیکھا تو وہ عمرو بن عبسۃ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملے،ان سے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’من کان بینہ وبین قوم عہد فلا یشد عقدۃ ولا یحلھا حتّٰی ینقضی امدھا أو ینبذ اِلیھم علی سواء ‘‘ (ابوداؤد: ص ۳۸ ج ۳ احمد وغیرہ ابن کثیر: ص ۴۲۳ ج ۲) جس کا کسی قوم کے ساتھ عہد ہے تو نہ اس میں اضافہ کرے نہ اسے توڑے،تاآنکہ عہد کی مدت پوری ہوجائے،یا (ان کی خیانت محسوس کرکے) انہیں مطلع کرے تاکہ وہ بھی برابری کی سطح پر آجائیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنی تو واپس لوٹ آئے،جس سے نقص عہد کی ممانعت کے ساتھ ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفا شعاری اور رسول اللہ کی اطاعت گزاری کاجذبہ بھی نمایاں ہوتا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بھی یہی فرمان ہے کہ: ﴿ وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُ الْخآئِنِیْنَ ﴾(الانفال : ۵۸) اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد توڑ دے،اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ خیانت سے مراد معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ ہے،ایسی صورت میں انہیں مطلع کرنے کا حکم فرمایا،کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں،تاکہ فریقین اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کریں،کوئی فریق لاعلمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔ عہد و و عدہ کی پاسداری کی بنا پر ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اعلان کیا کہ: من کان لہ عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عدۃ أو دین فلیأتنا۔کہ جس کسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا تھا یا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قرضہ لینا تھا تو وہ آئے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میرے ساتھ آپ کا وعدہ تھا کہ بحرین سے مال
Flag Counter