حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہرقل شاہ روم جب مسلسل پسپا ہورہا تھا تو انطاکیہ میں اس نے اپنے مصاحبوں سے پوچھا: مجھے اس قوم کے بارے میں جو ہمارے ساتھ برسرپیکار ہے بتلاؤ کیا یہ انسان نہیں ؟ تو انہوں نے کہا وہ انسان ہی ہیں اس نے کہا: تعداد میں تم زیادہ ہوتے ہو یا وہ؟ تو انہوں نے کہا ہر میدان میں ہم ان سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔اس نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ تم شکست کھا جاتے ہواور وہ کم ہونے کے باوجود فتح پاتے ہیں،تو ان مصاحبوں میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے کہا:
من أجل اِنّھم یقومون اللیل ویصومون فی ا لنّھار ویوفون بالعھد ویأمرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و یتناصفون بینھم
اس لئے کہ وہ رات کو نماز پڑھتے ہیں دن کو روزہ رکھتے ہیں،عہد کو پورا کرتے ہیں،معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہیں اور آپس میں انصاف کرتے ہیں۔
بلکہ ایک نے ایک اور موقعہ پر یہ بھی کہا: کہ’’ لو سرق فیھم ابن ملکھم لقطعوہ اوزنی رجموہ‘‘۔اگر ان کے بادشاہ کا لڑکا چوری کرے تو وہ اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے ہیں،یااگر زنا کرے تو اسے رجم کردیتے ہیں۔مگر ان کے مقابلے میں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم شراب پیتے ہیں،بدکاری کرتے ہیں،حرام کا ارتکاب کرتے ہیں،عہد کو توڑتے ہیں،اور ظلم و زیادتی کرتے ہیں،ان باتوں کے کرنے کا حکم دیتے ہیں جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہیں،اور ان کاموں سے روکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہوتا ہے۔یہ سن کر ہرقل نے کہا أنت صد قتنی۔تم نے مجھے سچی بات بتلائی ہے۔(البدایہ :ص ۱۵ ج ۷) غور کیجئے،مسلمانوں کی فتح اور کفار کی شکست کے اسباب میں ایک سبب یہ ہے۔یوفون بالعھد کہ مسلمان عہد کے پکے ہیں۔
عہد و میثاق کے حوالے سے یہ اور اسی نوعیت کے بہت سے واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اس کا کس قدر اہتمام کرتے،اور دشمنوں سے کئے ہوئے وعدہ کی بھی پاسداری کرتے۔
نقض عہد کی وعید
وفائے عہد ایمان کی علامت ہے،جبکہ نقض عہد نفاق کی اور بے دینی کی علامت
|