Maktaba Wahhabi

176 - 534
رو سے معاملات میں مقاصد کا اعتبار کیا جاتا ہے ، ظاہری الفاظ کا نہیں۔ مروجہ اجارہ میں اسلامی بینکوں کا مقصود سامان کی فروخت ہوتا ہے اور صارف کا مقصود سامان خریدنا ہوتا ہے ، بظاہر معاملہ کرایہ داری کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے، اور کرایہ بھی چیز کی قیمت کے حساب سے متعین کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم ابواللیل کہتے ہیں:’’یہ معاہدہ دراصل قسطوں پر بیع کی نئی شکل ہے‘‘[1]اسی طرح دیگر کبار اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں کہ یہ اجارہ نہیں بیع ہے، ان میں سلیمان بن ترکی الترکی[2] ، شیخ عبداللہ محمد عبداللہ [3]، شیخ دبیان محمد الدبیَان[4]شامل ہیں، اسی طرح بعض ممالک کے قوانین میں بھی اسے بیع ہی تصور کیا گیا ہے جیسا کہ مصر کا شہری قانون [5]اور کویت کا تجارتی قانون[6]۔اسی لئے مروجہ اجارہ کو (Ijarah Financing) اور (Ijarah Loan) کہا جاتا ہے، اور اسی لئے کوئی ایک اسلامی بینک بھی مروجہ اجارہ کے تحت دی گئی چیز کی واپسی کا تقاضہ نہیں کرتا، اب چونکہ مقصد چیز کی بیع ہے لہذا مروجہ اجارہ پر ، کرایہ داری کے احکامات لاگو نہیں ہوں گے بلکہ بیع کے احکامات کا اطلاق کیا جائے گا۔اور اجارہ کی مکمل صورت کا جائزہ لینے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل اقساط پر چیز کی فروخت ہے جسے اجارہ کا نام دیا گیا ہے۔ اسلامی بینک قسطوں پر چیز کی فروخت کا طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کرتے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے کہ جب مروجہ اجارہ میں قسطوں پر فروخت کے طریقہ سے بہت حد تک مماثلت ہے اور مروجہ اجارہ میں اصل مقصد بھی چیز کی فروخت ہی ہے تو پھر اتنا حیلہ کر کے اجارہ اور بیع کو ملانے کی کیا ضرورت ہے؟ اسلامی بینک ، اسے بیع التقسیط ہی کیوں نہیں کہہ دیتا اور اپنی اور صارف کی حیثیت کو مالک اور کرایہ دار کے بجائے ، فرخت کنندہ اور خریدار کی حیثیت سے متعارف کیوں نہیں کراتا؟۔ اس کا آسان اور سیدھا سا جواب یہ ہے کہ، تاکہ بینک سامان قسطوں پر فروخت کرنے کے باوجود بھی
Flag Counter